لیہ کے 18 خاندان بچوں کو پولیو کے قطرے کیوں نہیں پلوا رہے؟

انسداد پولیو کے خلاف بولنے والے افراد کے بیانات نے جہاں عوام کے دلوں میں پولیو قطروں سے نفرت پیدا کی، وہیں ایسے افراد کے بیانات نے پولیو ورکرز کے کام میں بھی مختلف رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی۔

پولیو کے ضلعی رابطہ کار غلام مصطفیٰ نے انکشاف کیا کہ  لیہ میں کُل 18 خاندان ہیں جو اپنے بچوں کو پولیو کی ویکسین لگوانے سے انکاری ہیں۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

لیہ کی صحرائی تحصیل چوبارہ میں مقیم 18 خاندان اپنے بچوں کو پولیو ویکسین لگوانے سے انکاری ہیں جس کے بعد ڈاکٹروں نے لیہ میں پولیو پھیلنے کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

پولیو وائرس کسی بھی متاثرہ فرد کے پاخانے سے آلودہ ہو جانے والے پانی یا خوراک میں موجود ہوتا ہے اور منہ کے ذریعے صحت مند افراد کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔ وائرس کی تعداد جسم میں جا کر کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور یہ متاثرہ فرد کے جسم سے خارج ہو کر باآسانی کسی دوسرے کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔

اس کے باوجود والدین اپنے بچوں کی صحت کے حوالے سے فکرمند دکھائی نہیں دیتے اور جب معاملہ پولیو جیسی بیماری کا ہو تو حالات اور بھی سنگین ہو جاتے ہیں۔ یہ نوٹ کیا گیا ہے کہ پاکستانی والدین نہ تو پولیو کو موذی مرض سمجھتے ہیں اور نہ ہی اس سے بچاؤ سے متعلق پولیو کے قطرے پلوانا لازمی سمجھتے ہیں۔

پولیو کے ضلعی رابطہ کار غلام مصطفیٰ نے انکشاف کیا کہ ’لیہ میں کُل 18 خاندان ہیں جو اپنے بچوں کو پولیو کی ویکسین لگوانے سے انکاری ہیں۔ ہم ان کے گھر پولیس کے ہمراہ بھی گئے لیکن ان خاندانوں نے اپنے بچوں کو پولیو کی ویکسین لگوانے پر رضامندی ظاہر نہیں کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ 18 سال سے لیہ پولیو فری ہے لیکن یہاں اکیویٹ فلیکسز پیرالائسز کے، جو معذوری کی ہی ایک قسم ہے، 107 کیس رجسٹرڈ کیے جا چکے ہیں جو کہ لمحۂ فکریہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناقدین کے مطابق پولیو کی وجہ سے لیہ میں پولیو پھیلنے کا خدشہ موجود ہے۔

2001 میں یونین کونسل مرہان سے ایک پولیو کیس رجسٹرڈ ہوا تھا لیکن اس کے بعد لیہ میں پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ لیہ میں پولیو مہم کے وقت کُل 859 ٹیمیں حصہ لیتی ہیں جن میں 749 موبائل ٹیمیں ہیں جو گھروں میں جاکر بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتی ہیں۔

ان میں 69 فکسڈ ٹیمیں ہیں جو ہسپتالوں میں پولیو کاؤنٹر پر ڈیوٹی دیتی ہیں جبکہ 41 ٹرانزٹ ٹیمیں ہیں جو بس سٹاپوں پر مسافر بچوں کو پولیو مہم کے دوران قطرے پلانے کے لیے موجود رہتی ہیں۔

لیہ میں واڑاں سیہڑاں اور 90 ایم ایل کے علاقے جو ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب ہیں، وہاں پولیو ورکرز کو ہراساں بھی کیا گیا لیکن پھر بھی بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ پولیو کے قطرے پینے سے کوئی بچہ رہ نہ جائے۔

پولیو ویکسین لگوانے سے انکاری خدائے رحیم خان، عبدالمنان خان، ظریف خان اور بہاول خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے ہمیشہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلوائے ہیں اور دوسری بیماریوں کے خلاف ویکسین بھی لگوائی ہے لیکن اس بار شدید گرمی میں جب بچوں کو پولیو کی ویکسین لگائی گئی تو بچے بیمار ہوگئے اس کے بعد ہم نے اپنے بچوں کی زندگی کے تحفظ کے لیے انکار کیا ہم حکومت سے ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہیں لیکن بچوں کی صحت و تندرستی اولین ترجیح ہے۔‘

اس حوالے سے ڈاکٹر ناظم زیدی کا کہنا ہے کہ ’پولیو کے قطرے پینے سے بچے بیمار نہیں تندرست ہوتے ہیں البتہ ویکسین کا ٹیکہ لگانے سے بچے کو بخار ہو جاتا ہے، جس کے بارے میں پولیو ٹیمیں بروقت آگاہ کرتی ہیں اور دوائی بھی دیتی ہیں۔ اگر پولیو ویکسین پر اعتراض کرنے والوں کے خلاف بروقت کارروائی کرکے بچوں کو پولیو ویکسین نہ لگوائی گئی تو لیہ میں پولیو وائرس پھیلنے کا خطرہ ہے، لہذا انتظامیہ اس کا کوئی مناسب حل نکالے۔‘

ڈپٹی کمشنر لیہ ذیشان جاوید نے بتایا کہ ’پولیو فری ضلع لیہ ہمارا مشن ہے۔ پولیو کوآرڈینیشن کمیٹی بھرپور تعاون کر رہی ہے اور سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ گذشتہ 18 سال سے لیہ میں کوئی بھی پولیو کیس سامنے نہیں آیا جو کہ پولیو کوآرڈینیشن ٹیم کی محنت کا نتیجہ ہے۔ جو لوگ پولیو ویکسین لگوانے سے انکاری ہیں، ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ان کو قائل کر سکیں۔ دوسری صورت میں قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘

ہیلتھ سپروائزر رقیہ بانو نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ معذوری کے کسی بھی کیس کی صورت میں ہم مریض کے پولیو کے متعلقہ ٹیسٹ کرواتے ہیں۔ اگر رپورٹس کے مطابق پولیو کی نشاندہی ہو جائے تو اسے درج کیا جاتا ہے۔

تمام لیڈی ہیلتھ ورکرز بھرپور لگن کے ساتھ سردی گرمی کا خیال کیے بغیر پولیو مہم مکمل کرتی ہیں لیکن ورکرز کو ہراساں کرنا، قتل کرنا اور اغوا کے کیسز ہمارے علمی و عملی شعور پر سوالیہ نشان ہیں اور حکومت وقت کو چاہیے کہ سکولوں کے نصاب میں پولیو کے بارے میں آگاہی کے اسباق شامل کرے۔

منفی پروپیگنڈا

سینیئر قانون دان مرزا عرفان بیگ ایڈووکیٹ نے قانونی مشاورت کے دوران کہا کہ وہ تمام لوگ جو حکومتی رِٹ کے خلاف اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلاتے، ان کے خلاف قانونی کارروائی لازمی ہونی چاہیے۔ ’ہم روز لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ساتھ ہراسانی کے اور تشدد واقعات سنتے ہیں اس حوالے سے بھی حکومت وقت کو واضح حکمت عملی اپنانی چاہیے۔‘

سماجی رہنما و مورخ ناصر ملک نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہاں سوشل میڈیا نے لوگوں کو شعور دیا ہے، وہیں بہت سے پراپیگنڈے نے بھی جنم لیا ہے۔ پاکستان مخالف قوتوں نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے پولیو کے قطروں اور ہیلتھ ورکرز کے خلاف جو مہم چلا رکھی ہے، اسے روکنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دراصل ہمیں پولیو کے بارے میں مکمل آگاہی دی ہی نہیں گئی کہ پولیو کتنا خطرناک ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس کا مطالعہ قارئین کو لازمی کروائیں۔‘

یہ بھی پڑھیں: پولیو ویکسین پلانے والی خاتون بائیکر

ان کا مزید کہنا تھا: ’انسداد پولیو مہم جتنا اچھا پروگرام ہے، بدقسمتی سے وہ اتنے ہی بڑے پروپگنڈے کا شکار ہے، زیادہ تر دیکھنے میں آیا ہے کہ اس منفی پروپگنڈے میں ایک مخصوص سوچ کے حامل افراد کی کثرت ہوتی ہے، بعض اشاعتی ادارے یا ان سے وابستہ افراد سمیت ملک کی اہم ترین شخصیات کی جانب سے انسداد پولیو مہم پر کبھی کبھار مختصر ہی سہی مگر منفی حوالے سے کی گئی بات کے بڑے خطرناک نتائج دیکھنے میں آئے ہیں اور لوگ اپنے پسندیدہ اداروں اور افراد کے بیان کو پولیو قطروں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔‘

یہی نہیں بلکہ انسداد پولیو کے خلاف بولنے والے افراد کے بیانات نے جہاں عوام کے دلوں میں پولیو قطروں سے نفرت پیدا کی، وہیں ایسے افراد کے بیانات نے پولیو ورکرز کے کام میں بھی مختلف رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی، جس کے باعث 2012 سے اب تک پورے ملک میں 70 سے زائد کارکنوں کو جان کے نذرانے دینے پڑے۔

حال ہی میں پشاور سے بھی ایک غلط خبر سامنے آئی کہ پولیو ویکسین پینے سے بچوں کی حالت غیر ہو گئی، بدقسمتی سے مرکزی میڈیا میں یہ خبر بریکنگ نیوز کے طور پر چلی، مگر بعد ازاں محکمہ صحت کے حرکت میں آنے اور تحقیقات ہونے پر جیسے ہی حقائق سے پردہ اٹھا تو معلوم ہوا کہ وہ سب کچھ ایک مقامی سکول کے پرنسپل کی ایما پر رچائے گئے، ڈرامے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت