2005 کے زلزلے کا تجربہ اب کام آرہا ہے

میرپور کے وہ لوگ، جو 2005 کے زلزلے میں متاثر نہیں ہوئے تھے اور انہیں اس بات کا تجربہ رہا ہے کہ قدرتی آفات کی صورت میں کس طرح کا ردعمل دینا چاہیے، وہ بڑی تعداد میں ریسکیو سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ زلزلے کے بعد کا آنکھوں دیکھا حال

کل شام جب زلزلہ آیا تو میں اسلام آباد میں موجود تھا۔ اُس وقت میرے پاس رپورٹنگ کا مکمل سازوسامان نہیں تھا لیکن جونہی مجھے تباہی کی اطلاعات ملنا شروع ہوئیں، میں اپنے آپ کو روک نہیں پایا اور بغیر وقت ضائع کیے، میرپور کی جانب روانہ ہوگیا۔

اسلام آباد سے میرپور پہنچنے میں تقریباً دو سے سوا دو گھنٹے لگتے ہیں، لیکن گذشتہ رات یہاں پہنچنے میں مجھے ساڑھے تین گھنٹے لگے کیونکہ اسلام آباد اور راولپندی سے بڑی تعداد میں لوگ میرپور کی طرف آرہے تھے اور راستے میں ٹریفک کا کافی رش تھا۔

رات دس بجے کے قریب جب میں میرپور پہنچا تو اردگرد کے علاقوں سے کافی بڑی تعداد میں مریض ڈسٹرکٹ ہسپتال لائے جاچکے تھے جن میں بچے، بوڑھے اور خواتین بھی شامل تھیں جبکہ ہسپتال کے باہر رضاکاروں اور زخمی ہونے والوں کے رشتہ داروں کا ایک جمِ غفیر اکٹھا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہاں موجود رضاکار زخمیوں کو خون دینے کے علاوہ ان کے اہلخانہ کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کر رہے تھے جبکہ اردگرد کے لوگ زخمیوں کی ضرورت کی اشیا ہسپتال پہنچا رہے تھے۔ شدید زخمیوں کو دیگر قریبی ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا جبکہ معمولی زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد واپس ان کے گھروں کو بھیج دیا گیا۔

زیادہ تر لوگوں کو سر میں زخم آئے ہیں۔ زلزلے کے باعث لوگوں نے گھروں سے بھاگنے کی کوشش کی تو ان کو سروں پر اینٹیں وغیرہ لگیں جبکہ چھتیں گرنے اور ملبے تلے دب جانے کی وجہ سے کچھ لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں بھی زخمی ہوئے۔ 

میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے طلبہ کے مطابق جب زلزلہ آیا تو ہلچل مچ گئی اور طلبہ نے وہاں سے باہر نکلنے کی کوشش کی۔ اس دوران کچھ طلبہ نے دوسری اور تیسری منزل سے چھلانگ لگا دی اور زخمی ہوئے جبکہ ہاسٹل کی چھت سے چھلانے لگانے کی وجہ سے ایک طالب علم کی ہلاکت ہوئی۔

بجلی نہ ہونے کی وجہ سے شہریوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑنا۔ جن مقامات پر عمارتیں گریں، وہاں لوگ باہر سڑکوں پر کھلے آسمان تلے بیٹھے تھے۔ لوگ خوف کا شکار تھے اور گھروں اور عمارتوں میں جانے کو تیار نہیں تھے۔

دیگر علاقوں سے آئے ہوئے صحافیوں اور رضاکاروں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ آفٹر شاکس کے خدشے کے پیش نظر اُن ہوٹل مالکان نے اپنے ہوٹلوں کو عارضی طور پر بند کردیا تھا، جنہیں زلزلے کے باعث معمولی نقصان پہنچا تھا۔ جس کی وجہ سے رہائش کا مسئلہ درپیش آیا اور لوگوں نے رات گاڑیوں میں یا کھلے آسمان تلے گزاری۔

جب 2005 کا زلزلہ آیا تو میں اُس وقت اپنے کیریئر کے ابتدائی مراحل میں تھا۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ میں نے صحیح معنوں میں صحافت اس بدترین زلزلے کی کوریج کے دوران ہی سیکھی۔ اُس وقت تباہی کا لیول بہت زیادہ تھا اور وہاں پر ریسکیو اور ریلیف آپریشن کرنے والے کئی دن تک کئی علاقوں میں نہیں پہنچ سکے تھے، ہلاکتیں بہت زیادہ تھیں اور انفراسٹرکچر تباہ ہوا تھا۔

لیکن حالیہ زلزلے سے میرپور ریجن کا چھوٹا سا علاقہ، جس میں آٹھ دس گاؤں شامل ہیں، متاثر ہوئے ہیں۔ جاتلاں، چیچیاں، نگیال اور سموال کے علاقے چونکہ زلزلے کے مرکز سے قریب تھے، اس لیے یہاں زیادہ نقصان ہوا اور پورے پورے گاؤں تباہ ہوگئے۔

میرپور شہر کے اندر تباہی اتنی زیادہ نہیں ہوئی، اس لیے یہاں کے لوگ امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ شہر میں رش معمول سے کافی کم ہے اور زیادہ تر لوگ متاثرہ علاقوں کی طرف چلے گئے ہیں۔ اس میں سب سے بڑا فیکٹر یہ ہے کہ میرپور کے وہ لوگ، جو 2005 کے زلزلے میں متاثر نہیں ہوئے تھے اور انہیں اس بات کا تجربہ رہا ہے کہ جب قدرتی آفت آتی ہے تو کس طرح کا ردعمل دینا چاہیے، وہ بڑی تعداد میں ریسکیو سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ میں رات سے رضاکاروں کی ایک بہت بڑی تعداد کو ہسپتالوں کے باہر دیکھ رہا ہوں جو خون کے عطیات دینے سمیت مریضوں اور ان کے اہلخانہ کی ہر طرح سے مدد کر رہے ہیں۔ 2005کے زلزلے میں یہ صورت حال دیکھنے میں نہیں آئی تھی کیونکہ پورا نظام ہی تباہ و برباد ہوگیا تھا۔

بارش کے باعث بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ

میرپور کے گردونواح میں ہلکی بارش کے باعث درجہ حرارت میں کافی کمی آئی ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ بچے، خواتین اور زخمی اور خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے رات کھلے آسمان تلے گزاری ہے، ان میں بیماریں پھیل سکتی ہیں، کیونکہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ زلزلے کے بعد ہونے والی بارشوں کی وجہ سے بیماریاں زیادہ پھیلتی ہیں۔

اگر بارش کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ریسکیو ٹیموں کو امدادی کارروائیاں جاری رکھنے میں بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

منگلا ڈیم کی صورت حال

منگلا ڈیم سے نکلنے والی نہر اَپر جہلم پر زلزلے کے باعث دو مقامات پر شگاف پڑنے کی اطلاعات تھیں، جس کی وجہ سے جاتلاں اور قریبی گاؤں زیرِ آب آگئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ نہر کو عارضی طور پر بند کردیا گیا تاکہ شگاف کی مرمت کی جاسکے۔

دوسری جانب منگلا ڈیم سے پانی کا اخراج جاری ہے، کیونکہ ماہرین کے مطابق اس میں ریت اور مٹی کے ذرات پھیل گئے ہیں، جو اگر پاور ہاؤس میں چلے جائیں تو اسے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے، جس کے باعث پاور ہاؤس کو عارضی طور پر بند کردیا گیا جبکہ منگلا ڈیم کے پانی کا اخراج دریائے جہلم میں کیا جارہا ہے تاکہ کسی نقصان سے بچا جاسکے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان