مواخذہ: تحقیقات کی ناکامی بھی ٹرمپ کے لیے خطرناک

ڈیمو کریٹک پارٹی کے لیڈر صدر ٹرمپ کے خلاف یکجا ہوگئے ہیں اور وہ اس کا استعمال انتخابات میں کر سکتے ہیں۔

ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے جولائی میں ٹیلی فون کر کے یوکرائن کے صدر ولودومیر زیلینسکی پر دباؤ ڈالا کہ وہ سابق نائب امریکی صدر جو بائڈن کے بیٹے کے خلاف تحقیقات کریں  (اے ایف پی) 

امریکہ میں ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما دو سال سے زیادہ عرصے سے لوگوں کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مبینہ بدعنوانی کی کہانی کے بارے میں سادہ ترین طریقے سے بتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

قانونی جنگ پسند کرنے والے امریکی شہریوں کے لیے ڈیموکریٹ ارکان نے پہلے پہل قانونی طریقے استعمال کیے۔ انہوں نے اپنی امیدیں خصوصی وکیل رابرٹ ملر اور 2016 میں امریکی صدارتی انتخاب میں روسی مداخلت اور اس کی تحقیقات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے سے متعلق ان کی رپورٹ سے وابستہ کیں۔

ڈیموکریٹ ارکان نے رابرٹ ملر کی رپورٹ کو اتنا واضح نہ پایا جتنا وہ چاہتے تھے۔ رپورٹ کی تیاری میں رکاوٹوں کی 10 مبینہ کوششوں کے بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔ اس صورت حال میں ڈیموکریٹس نے عدالتوں کا رخ کر لیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیکس گوشوارے مانگے گئے اور ان پر قانونی جنگ لڑی گئی لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا جس کی وجہ یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس ٹرمپ کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔ اتنے واضح انداز میں کوئی مقدمہ دائر نہیں کیا جا سکا جس کی بنیاد پر صدر ٹرمپ کے ’میں نے ایسا نہیں کیا‘ اور ’سیاسی انتقام‘ کے بیانیے کو غلط ثابت کیا جا سکے۔

امریکی ایوان نمائندگان میں سرکردہ ڈیموکریٹ رہنما نینسی پیلوسی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف سیاسی اقدام یعنی مواخذے کی سخت مخالف رہی ہیں، ان کے خیال میں ایک قانونی فیصلہ واضح جبکہ کوئی سیاسی فیصلہ پیچیدہ ہوگا اور جو اگرغلط ثابت ہوا تو اس کے اثرات ووٹروں پر پڑیں گے، لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر یوکرائن کے حوالے سے الزامات نے ان کے بیانیے کو تبدیل کر دیا ہے۔

ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے جولائی میں ٹیلی فون کرکے یوکرائن کے صدر ولودومیر زیلینسکی پر دباؤ ڈالا کہ وہ سابق نائب امریکی صدر جو بائڈن کے بیٹے کے خلاف تحقیقات کریں۔ جو بائڈن 2020 کے صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے نامزدگی کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے یوکرائن کے صدر سے جو بائیڈن کے بارے میں بات کی لیکن ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کے سمجھوتے کی تردید کی ہے۔ انہوں نے یوکرائن کے لیے امداد کی فراہمی میں تاخیر کا بھی اعتراف کیا ہے لیکن کہا ہے کہ یورپی ممالک اس امداد میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یورپی ملک اس حوالے سے مزید اقدامات اٹھائیں۔

امریکی صدر پر الزامات انٹیلی جنس برادری کے ایک عہدیدار کی شکایت کے بعد سامنے آئے ہیں۔ اس خفیہ اہلکار کی جانب سے دائر کی گئی رسمی شکایت مبینہ طور پر صدر کی ٹیلی فون کال سے متعلق ہے۔ امریکی نیشنل انٹیلی جنس کے قائم مقام ڈائریکٹر جوزف میگوائر شکایت کی تفصیلات جاری کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب بیانیہ بالکل سادہ ہو چکا ہے کہ ڈیموکریٹ ارکان کی بڑی تعداد جن میں وہ بھی شامل ہیں جنہیں دوبارہ انتخاب کی سخت مہم کا سامنا ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے باضابطہ مواخذے کے لیے اُس ٹیلی فون کال کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ ایوان کی سپیکر نینسی پیلوسی کو جس سیاسی تحفظ کی ضرورت ہے، انہیں وہ اب حاصل ہے حالانکہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ سینیٹ جس میں ری پبلکن ارکان کی تعداد زیادہ ہے حقیقت میں امریکی صدر کے مواخذے کے لیے تیار ہوگی۔

حالات ملر انکوائری میں شامل نکات جیسے ہیں یعنی صدارتی الیکشن میں کسی غیر ملک کی معاونت، لیکن ڈیموکریٹ ارکان کو بظاہر یقین ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا یوکرائن کے صدر کو ٹیلی فون ایک واضح سکینڈل ہے۔ تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے نینسی پیلوسی نے کہا: ’صدر نے اب تک جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ آئین کی سنگین خلاف ورزی ہیں اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔‘

اب تک ایسی کوئی تبدیلی نہیں آئی جو محسوس کی جا سکے۔ ایوانِ نمائندگان کی چھ کمیٹیاں صدر ٹرمپ کے طرزِ عمل کے مختلف واقعات کی چھان بین کر رہی ہیں۔ عدالتی کمیٹی کے چیئرمین جیری نیڈلر گذشتہ چند ہفتے سے نینسی پیلوسی کے ساتھ بار بار الجھ رہے ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے مواخذے کے لیے پہلے ہی تحقیقات کر رہے ہیں۔

لیکن اب نیا یہ ہوا ہے کہ ڈیموکریٹ ارکان سرکاری طور پرایک ہی صفحے پر آگئے ہیں۔ مقصد واضح ہونے سے پیغام بھی واضح ہو سکتا ہے اور گومگو کی کیفیت ختم ہو جائے گی۔

یہ واضح صورت حال عوام کی عدالت میں برقرار رہی تو ہم لوگوں کی رائے میں تبدیلی دیکھ سکتے ہیں۔ عوامی سماعتوں کا وہی کردار ہو سکتا ہے جو انہوں نے واٹر گیٹ سکینڈل کے دوران ادا کیا تھا۔ اس سلسلے میں ڈیموکریٹ ارکان ٹرمپ کے سوشل میڈیا اور فوکس نیوز کے ذریعے پھیلے اثرو رسوخ کا مقابلہ کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ واضح عوامی سماعتیں جنہیں کیبل نیوز کے شیڈولز میں غلبہ حاصل ہو ڈرامائی طور پر مدد گار ثابت ہوں گی۔

ڈیموکریٹ ارکان اس بات پر خوش نہیں ہیں کہ نینسی پیلوسی نے کہا ہے کہ ایوان نمائندگان کی دوسری کمیٹیاں عدالتی کمیٹی کے لیے سفارشات تیار کریں گی جس کے پاس صدر کے مواخذے کا اختیار ہے۔ ان کمیٹیوں کی رپورٹس صدر کے مواخذے کے نکات تیار کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ بہت سے ڈیموکریٹس مواخذے کی دوسری ایسی شرائط جو ٹرمپ کے ٹیکس گوشواروں اور انتخابی اخراجات کے قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات پر بحث سے متاثر نہیں ہوئیں، ان کے ساتھ یوکرائن والے مسئلے پر بھرپور توجہ چاہتے ہیں۔

پہلے کی طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بار بھی تمام صورت حال کو ’سیاسی انتقام‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ وہ یوکرائن کے صدر کے ساتھ ٹیلی فون پر ہونے والی اپنی بات چیت کا جزوی مسودہ جاری کرکے نینسی پیلوسی کے مواخذے کے اعلان پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکی صدر خفیہ اہلکار کی شکایت کانگریس کو بھجوانے کی تیاری بھی کر رہے ہیں۔

تاخیری حربے اور پانی کو گندلا کرنے کا عمل ٹرمپ کے کھیل کے اصولوں میں شامل ہیں لیکن اگر ڈیموکریٹس تیزی سے آگے بڑھتے ہیں تو وہ جوابی اقدام میں وائٹ ہاؤس کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔ ٹرمپ میڈیا کی جانب سے سامنے لائے گئے بعض نکات کے معاملے میں پہلے ہی پیچھے ہٹ گئے ہیں جبکہ ان کے وکیل روڈی جولیانی ایک ہی انٹرویو میں اپنی کہی باتوں کی تردید کر چکے ہیں۔

نیسی پیلوسی نے ڈیموکریٹس ارکان سے کہا ہے کہ وہ ’اُس وقت چوٹ لگائیں جب لوہا گرم ہو‘۔ سیاسی خطرہ زیادہ ہے کیونکہ سینیٹ کی جانب سے مواخذہ روکنے کی صورت میں ٹرمپ دوبارہ مضبوط ہو سکتے ہیں۔ پیلوسی اس وقت ممکنہ انتخابی فائدہ دیکھ رہی ہیں۔ امریکی عوام کے سامنے رکھنے کے لیے طے شدہ بیانیے کے ساتھ ڈیموکریٹک پارٹی اب زیادہ واضح مقصد کے ساتھ میدان عمل میں اتر سکتی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ