’جہاں زلزلہ آتا ہے وہاں خواتین کی عزت کو خطرہ ہوتا ہے‘

میرپور کے زلزلے سے متاثرہ دیہاتوں میں نوجوان لڑکیاں خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’طرح طرح کے لوگ آرہے ہیں، یہ پتا نہیں چلتا کون مدد کرنے آ رہا ہے اور کون نقصان پہنچانے۔‘

24 ستمبر کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر میرپور میں آنے والے تباہ کن زلزلے نے اگرچہ ہر عمر اور جنس کے لوگوں پر گہرے اثرات چھوڑے مگر خواتین اور بچوں پر اس سانحے کے نقوش دیر تک قائم رہیں گے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عام طور پر قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں خواتین اور بچے کافی عرصے تک صدمے کی کیفیت میں ہونے کے باعث اپنی مصیبتوں اور مشکلات کا کم ہی اظہار کر پاتے ہیں۔

میرپور کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی خواتین بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں اور اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کر رہی ہیں تاہم ان میں سے چند ایک نہ صرف ان مشکلات اور خدشات سے آگاہ ہیں بلکہ ان کا اظہار بھی کر رہی ہیں۔

تحصیل چیچیاں کے گاؤں سانگ ذیلداراں کی رہائشی 16 سالہ ماریہ اکرم بھی ان ہی میں سے ایک ہیں۔ اپنے تباہ شدہ گھر کے صحن میں بچھی چارپائیوں پر اپنی والدہ اور دو بہنوں کے ساتھ بیٹھی ماریہ اکرم کا کہنا ہے کہ جب اس طرح کی آفات آتی ہیں تو ہر طرح کے لوگ گھروں میں گھس آتے ہیں۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ کون آپ کی مدد کرنا چاہتا ہے اور کون آپ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔

’اجنبی لوگوں کو یہاں نہیں آنے دینا چاہیے ۔ ہمارے بڑے یہاں موجود نہیں جو عورتوں کی حفاظت کریں اور میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ ہمیں اپنی عورتوں کی حفاظت کا خود خیال کرنا چاہیے۔‘

دسویں جماعت کی طالبہ ماریہ اکرم کے خدشات بے جا نہیں۔ ماضی میں پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سانحات کے دوران خواتین اور بچے مختلف طریقوں سے استحصال کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ خاص طور پر 2005 کے زلزلے کے دوران بچوں اور خواتین کے اغوا اور انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے کئی واقعات رونما ہوئے۔

اگرچہ ان واقعات کے اعداد و شمار میسر نہیں تاہم حکام مختلف مواقعوں پر اس نوعیت کے واقعات کی تصدیق کرتے رہے ہیں۔

ماریہ کہتی ہیں: ’جہاں زلزلے آرہے ہیں وہاں پر خواتین کی عزت کو خطرہ ہے کیونکہ کسی کی مدد کرنے کی بجائے لوگ ایک دوسرے کو لوٹ رہے ہیں۔ ہمارے ملک کے لوگ ایسے ہیں کہ صرف اپنا سوچتے ہیں کسی دوسرے کا نہیں۔ ہم اب یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ سب کی عزت پر پردہ ڈالے اور ایسے برے لوگوں سے ہم سب کو بچائے۔‘

’گھر پھر بن جائے گا لیکن عزت چلی گئی تو کیا کریں گے؟‘

ماریہ کی بات کی تائید کرتے ہوئے ان کی والدہ 45 سالہ جمیلہ بی بی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ انہوں نے کہا: ’ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ اللہ ہی کچھ رحم کرے۔ پہلے بھی اللہ نے کرم کیا۔ ہمارا تھوڑا بہت نقصان ہوا۔ گھر کی دیوار گری ہے، گھر پھر بن جائے گا لیکن اگر عزت چلی گئی تو اس کا کیا کریں گے؟‘

جمیلہ بی بی اور ان کی بیٹیاں 22 سالہ عروسہ، ماریہ اور 14 سالہ مدیحہ اکرم اس بات پر مطمئن ہیں کہ زلزلے میں ان کی جان بچ گئی، تاہم ان کا اگلا چیلنج یہ ہے کہ عزت کیسے محفوظ رکھیں۔

جمیلہ بی بی کے بقول اس علاقے میں لوگوں کو فوری طور پر کھانے پینے کی اشیا، ادویات اور جن کے گھر گرے ہیں انہیں خیموں کی ضرورت ہے تاہم سب سے زیادہ لوگوں کو اور خاص طور پر نوجوان بچیوں کو تحفظ کی ضرورت ہے۔

اسی گاؤں کی 70 سالہ عظمت بیگم کو امدادی کارکنوں اور سرکاری اہلکاروں سے بھی شکایت ہے۔ وہ کہتی ہیں: ’جو بھی آتا ہے سیدھا گھر کے اندر گھس جاتا ہے۔ کوئی پوچھتا ہے نہ اجازت لیتا ہے۔ کسی کو خیال نہیں کہ گھر میں کون ہے۔ کس حال میں ہے۔ ہمارے گھر تباہ ہیں، ہم باہر بیٹھے ہیں۔ اوپر سے لوگ سروں پر چڑھے ہوئے ہیں۔ ہم کس کس کو سمجھائیں؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں تباہ شدہ گھروں سے قیمتی اشیاء چوری ہونے کی کئی اطلاعات سامنے آئی ہیں تاہم پولیس نے ابھی تک اس نوعیت کا کوئی مقدمہ درج نہیں کیا۔

ماریہ بی بی کے بقول: ’ہمارے ساتھ والے گاؤں میں بہت زیادہ چوریاں ہوئی ہیں، لوگ تو اپنے آپ کو بچانے میں لگے ہوئے تھے۔ وہاں چور گھس آئے تھے، جنہوں نے چوریاں بھی کیں اور لوگوں کو بہت نقصان بھی پہنچایا۔‘

ماریہ کے بقول کچھ لوگوں کے تو گھر ہی زمین میں چلے گئے۔ بڑی مشکل سے وہ باہر نکلے ہیں۔ ’ہمیں اپنی عزت کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ وہ تو لوگوں کے گھروں میں گھس کر چیزیں چرا رہے ہیں پتہ نہیں کیا ہوگا۔‘

اگرچہ زلزلے سے متاثرہ کئی علاقوں میں مقامی لوگ اس سے ملتی جلتی کہانیاں سنا رہے ہیں، تاہم حکام نے اس طرح کے واقعات کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

موہڑا ککراں نامی گاؤں کے رہائشی نوجوان راشد علی کا کہنا ہے کہ صورتحال ایسی ہے کہ لوگ جنازے دفنائیں، زخمیوں کی دیکھ بھال کریں یا اپنے سامان کی حفاظت کریں۔ ’اتنا وقت کہاں ہے کہ لوگ جا کر پولیس کے پاس مقدمے درج کروائیں۔‘

ماریہ کے والد محمد اکرم رکشہ چلاتے ہیں جبکہ ان کے دو بھائی محنت مزدوری کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’رات سے وہ گھر میں نہیں ہیں۔ وہ محلے والوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ہمیں سب کی مدد کرنی چاہیے اور خواتین کو بھی ان کے ساتھ جانا چاہیے۔ ‘

ماریہ کے خدشات اپنی جگہ مگر وہ اپنے مستقبل کے بارے میں پُر عزم بھی ہیں۔ ’ہم مردوں سے کم نہیں ہیں۔ ہم ان کے شانہ بشانہ چلتی ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو کچھ بھی کر سکتی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان