وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کا بدلہ چکا دیا؟

ایک بجے اجلاس شروع ہونا تھا اور دیگر وزرا خارجہ کی طرح بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر وہاں موجود تھے لیکن انتظار تھا تو پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا۔

پاکستان اور بھارت کی وزرا خارجہ کی نشستیں ایک دوسرے کے عین سامنے تھیں (اے ایف پی)

نیویارک کے ویسٹ اِن ہوٹل میں جمعرات کو سارک ممالک کے وزرا خارجہ کا غیر رسمی اجلاس ہوا جس میں پاکستان اور افغانستان کے علاوہ تمام سارک رکن ممالک کے وزرا خارجہ موجود تھے۔ افغانستان کی نمائندگی ان کے اعلیٰ سفارتی افسر نے کی اور پاکستان کی نمائندگی ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کی۔

ایک بجے اجلاس شروع ہونا تھا اور بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر ٹھیک ایک بجے وہاں موجود تھے۔ سارک رکن ممالک نیپال، بھوٹان، سری لنکا، بنگلہ دیش، مالدیپ اور بھارت کے وزرا خارجہ بھی میٹنگ ہال میں پہنچ چکے تھے۔ انتظار تھا تو پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا۔

ہال کے باہر ہوٹل کی راہداری بھارت اور پاکستان کے صحافیوں سے کھچا کھچ بھری تھی۔ سب جاننا چاہتے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے وزرا خارجہ ایک دوسرے سے بات چیت کریں گے یا نہیں۔ 

اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہال کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ لمبی ٹیبل کے اطراف میں کرسیاں لگائی گئیں تھیں۔ پاکستان اور بھارت کی وزرا خارجہ کی نشستیں ایک دوسرے کے عین سامنے تھیں اس لیے یہ قوی امکان سمجھا جا رہا تھا کہ آمنا سامنا ہونے پر علیک سلیک ہو سکتی ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن سارک وزراجہ خارجہ میٹنگ میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وہی کیا جو گذشتہ برس بھارتی وزیر خارجہ سوشما سوراج نے کیا تھا۔ گذشتہ برس اسی مقام پر سارک غیر رسمی اجلاس میں تمام ممالک کے وزرا خارجہ موجود تھے پاکستان کی جانب سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی موجود تھے وقت پر اجلاس کا آغاز کیا گیا، لیکن بھارت کی سابق وزیر خارجہ سوشما سوراج اجلاس شروع ہونے کے بعد بہت دیر سے تشریف لائیں جب انھیں قوی یقین ہو گیا کہ پاکستانی وزیر خارجہ کی تقریر ختم ہو چکی ہو گی۔

ابھی اجلاس جاری تھا کہ سابق بھارتی وزیر خارجہ آئیں اور 15 منٹ بیٹھ کر اپنی تقریر کر کے چلی گئیں۔ شاہ محمود قریشی اور سوشما سوراج کی کوئی بات ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ سوشما سوراج نے بعد میں یہ موقف دیا تھا کہ ’دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ملک سے بات ہی نہیں کرنی‘۔ 

جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تاریخ کو دوہرا دیا۔ شاہ محمود قریشی اجلاس میں تب تک نہیں آئے جب تک بھارت کے وزیر خارجہ نے اپنی تقریر ختم نہیں کر لی۔ بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر 48 منٹ اجلاس میں موجود رہے۔ جب بھارتی وزیر خارجہ اپنی تقریر مکمل کر کے اجلاس سے چلے گئے تو ٹھیک 25 منٹ بعد پاکستانی وزیر خارجہ تشریف لائے۔ 

نیویارک کے سینیئر صحافی میاں عظیم نے سوال کیا کہ قریشی صاحب کیا وجہ ہے کہ آپ بھارتی ہم منصب کے بعد میٹنگ میں پہنچے ہیں؟

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سوال کا جواب کچھ یوں دیا: ’آپ توقع کرتے ہیں کہ کشمیریوں کے قاتل کے ساتھ میں بیٹھوں۔ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا تھا۔‘

اس سے قبل بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے انڈپینڈنٹ اردو کے سوال کہ آپ کشمیر کے حوالے سے کوئی بات کرنا چاہیں گے، انہوں نے ایک لفظی جواب دیا اور کہا ’نہیں۔‘

راہداری میں موجود صحافیوں نے یہی تبصرہ کیا کہ پاکستانی وزیر خارجہ نے بھارت سے گذشتہ برس کا بدلہ چکا دیا ہے۔ جیسا بھارت کی وزیر خارجہ نے گذشتہ برس کیا تھا ویسا ہی شاہ محمود قریشی نے اس برس کر دیا۔ 

بعدازاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا کو بتایا کہ ’سارک سربراہان مملکت کا اجلاس جو 2016 میں اسلام آباد میں ہونا تھا لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث اب تک نہیں ہو سکا جلد ہی اُس اجلاس کا انعقاد پاکستان میں کیا جائے گا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے وزیر خارجہ سے سوال کیا کہ کیا اب بھارت نے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی؟ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جواب کہا کہ ’پاکستان میں اجلاس کے انعقاد کے حوالے سے بھارت نے اس سال خاموشی اختیار کی ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا