عراق کا شیعہ اکثریتی شہر جہاں دولت اسلامیہ سر اٹھا رہی ہے

کربلا میں حالیہ بم دھماکے سے یہ تاثر ظاہر ہوتا ہے کہ دولت اسلامیہ کا عراق سے مکمل خاتمہ نہیں ہوا ہے۔

کربلا میں 20 ستمبر کو ہونے والے بم دھماکے میں حملہ آور نے بس میں بارودی مواد چھوڑا (اے پی)

20 ستمبر کی شب ایک سفید منی بس شیعہ برادری کے مقدس شہر کربلا میں داخل ہوئی جس میں سے ایک نوجوان شخص باہر نکلا۔ چند لمحوں بعد اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ریموٹ کنٹرول کا بٹن دبایا اور منی بس میں اپنی سیٹ کے نیچے رکھے بیگ میں بارودی مواد کو اڑا دیا۔ ایک زور دار دھماکے سے پورا شہر لرز اٹھا۔ 

اس دھماکے میں 12 افراد ہلاک اور پانچ شدید زخمی ہو گئے تھے۔ اس واقعے کی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شعلوں نے بس کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور زندہ جلتے ہوئے لوگوں کی چیخ و پکار اور آہ و بکا سے کان پڑی آواز سنائی نہیں پڑتی۔

عراقی حکام نے سی سی ٹی وی سے حاصل کی گئی تصاویر سے حملہ آور کی شناخت کی اور چند روز بعد ملزم کو اس کے دو ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا۔ ان سب کا تعلق سنی اکثریتی قصبے جرف الصخر سے تھا۔ خود کو دولت اسلامیہ کہلانے والی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

عراق میں اس بم حملے میں کم جانی نقصان ہوا جہاں گذشتہ دو برسوں سے ایسے جان لیوا حملوں میں کمی دیکھی گئی ہے۔ سالوں قبل اس طرح کے حملوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو جایا کرتے تھے۔ اس نئے حملے کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ اس سے یہ تاثر ظاہر ہوتا ہے کہ دولت اسلامیہ کا عراق سے مکمل خاتمہ نہیں ہوا ہے اور یہ عالمی دہشت گرد تنظیم دوبارہ اپنے آپ کو منظم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ 2017 میں دولت اسلامیہ اپنے نام نہاد درالحکومت موصل کو کھو دینے کے بعد شکست خوردہ تھی اور یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ اب یہ دوبارہ سر نہیں اٹھا پائے گی۔

کربلا میں سینٹر فار سکیورٹی کے علی التلکانی کہتے ہیں: ’انہوں (دولت اسلامیہ) نے اپنا علاقہ کھویا ہے لیکن ان کے پاس اب بھی بنیاد پرست حامیوں کی کمی نہیں ہے۔ وہ ان لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جو دولت اسلامیہ کے زوال کے بعد عارضی طور پر ان کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔‘

دولت اسلامیہ خاص طور پر سنی برادری کے ان لوگوں کو بھرتی کرنے کی کوشش کریں گے جو عراق میں 2013 سے 2017 کے درمیان برپا ہونے والی پُرتشدد خانہ جنگی کے دوران بری طرح متاثر ہوئے تھے اور جہنوں نے اس دوران احساس محرومی اور نفرت کا سامنا کیا ہے۔

20 ستمبر کو کربلا بم دھماکے کو انجام دینے والے تین رکنی گروہ کا آبائی علاقہ دولت اسلامیہ کی اسی میراث کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ جرف الصخر، جس کی آبادی نوے ہزار تھی، بغداد کے جنوب کے چند سنی اکثریتی شہروں میں سے ایک تھا جو القاعدہ اور بعد میں دولت اسلامیہ کے مضبوط گڑھ کی حیثیت سے بدنام ہوئے۔

انہوں نے بغداد، کربلا اور اس کے آس پاس شیعہ اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے اس مرکزی راستے کے سٹریٹجک مقام کا فائدہ اٹھایا۔

تاہم شیعہ ملیشیا گروپوں نے 2014 میں ان علاقوں پر دھاوا بول کر پوری سنی آبادی کو وہاں سے  بے دخل کردیا گیا تھا۔ بہت سے سنی خاندان جو بڑے بڑے کھیتوں اور باغوں کے مالک تھے وہ پچھلے پانچ سالوں سے چھوٹے گھروں یا ایک ہی کمرے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جرف الالصخر ایک ماضی کا شہر بن گیا جہاں زیادہ تر سخت گیر شیعہ ملیشیا نے قبضہ کر لیا ہے۔

اس قصبے کے باشندے عرصہ دراز سے حکومت سے اپنے گھروں کو لوٹنے کی اجازت مانگ رہے ہیں لیکن اس بنیادی مطالبے پر مستقبل قریب میں عمل درآمد کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔

الحلا صوبے کے آس پاس کی اکثریت شیعہ آبادی کو اس بات کا اطمینان ہے کہ ان کے علاقوں کے قریب سے دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے اور ان کے نمائندوں نے ایسے سیاستدانوں کے خلاف قانونی کارروائی کی دھمکی دی ہے جو جرف الصخر کے لوگوں کو اپنے علاقوں میں واپس جانے کی اجازت دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کربلا کے شہریوں کا کہنا ہے کہ 20 ستمبر کے بم دھماکے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شہر کا بیرونی دفاع مضبوط ہے جسے دہشت گرد گزر نہیں پائے۔

اگلے چند ہفتوں میں کربلا کی سکیورٹی کا ایک نیا اور اہم امتحان ہو گا کیونکہ پوری دنیا سے لاکھوں شیعہ زائرین کربلا میں ’اربعین‘ کے جلوس میں شریک ہوں گے۔

مذہبی جھنڈے لہراتے ہوئے کربلا کی جانب بڑھتے ہوئے بڑے بڑے قافلے بمباروں کا آسان ہدف ہو سکتے ہیں لیکن سخت سکیورٹی کی وجہ سے حالیہ برسوں میں وہ نسبتاً محفوظ رہے ہیں۔

کربلا خود ایک تعمیراتی دور سے گزر رہا ہے جہاں ہر جگہ کرینیں نصب ہیں خاص طور پر حضرت امام حسین اور حضرت امام عباس کے مزاروں کے آس پاس جن کے سنہری گنبد اور دیواروں کو شہر میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

عراقی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ’ہم ان مقدس مزاروں پر حاضری دینے والے لاکھوں زائرین کے لیے وسیع رہائش گاہیں تعیر کر رہے ہیں۔‘ اس کے نتیجے میں تعمیراتی مشینری ہر جگہ موجود ہے اور زمین میں دیوہیکل سوراخ ہیں جہاں ہوٹلوں اور ہاسٹلز کی بنیادیں تعمیر کی جارہی ہیں۔

ان مقدس مقامات پر زائرین کی بڑی تعداد کی سلامتی کے لیے بڑی تعداد میں سیاہ پوش نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا ہے۔ حضرت امام حسین کے مزار پر 15 ہزار جبکہ مسجد حضرت عباس پر سات ہزار رضاکار تعینات کیے گئے ہیں۔

یہ رضاکار ہمیشہ کامیابی کے ساتھ ایسا نہیں کر پاتے جیسا کہ 10 ستمبر کو ہوا جب عاشورہ کے موقعے پر حضرت امام حسین کے مزار کے دروازے پر ہجوم کی بھگدڑ میں 31 افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔

اس موقع پر ایک بوڑھا شخص پھسل کر باب الرضا سے گر پڑا تھا۔ زائرین ہجوم کی شکل اختیار کر گئے تھے کیونکہ مزار کے صرف دو ہی دروازے کھلے تھے۔ تعمیراتی کام کا مطلب تھا کہ باقی آٹھ دروازے یا تو بند تھے یا ان تک رسائی ناممکن تھی جس کی وجہ سے زائرین تنگ دروازوں میں پھنس گئے تھے۔

2003 میں امریکی حملے کے نتیجے میں صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد سے عراق کے باقی علاقوں اور شیعہ دنیا سے لاکھوں زائرین کی کربلا آمد کو عراق میں شیعہ اکثریت کی فتح کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اس سے ملک میں سنی حکمران خاندان کے غلبے کا خاتمہ ہوا جہاں صدام حسین برسوں تک اقتدار پر قابض رہے۔ اس سے پہلے یہ ملک برطانوی اور عثمانی خلافت کا بھی حصہ رہا تھا۔

1991 میں کربلا میں شیعہ مزارات صدام حکومت کے خلاف مزاحمت کا آخری گڑھ تھے جن کو ریپبلکن گارڈز نے ٹینکوں کے ذریعے قتل عام اور تباہی سے مٹا دیا تھا۔

ایران، عراق جنگ کے دوران ایران سے پکڑے گئے برطانوی ساختہ ٹینکوں کو مزارات کے باہر کھڑا کیا گیا تھا اور عراقی فوجیوں نے ان مقدس مقامات کے احاطے میں ڈیرے ڈال کر صدام کی تصاویر کے ساتھ اپنی فتح کا جشن منایا تھا۔

تقریباً 30 سال بعد جرف الصخر جیسے سنی شہروں سے مقامی باشندوں کی بے دخلی اور موصل جیسے سنی شہروں کی جزوی تباہی نئے عراق کی پہچان ہیں۔ یہاں تک کہ اگر گذشتہ ہفتے کربلا میں ہونے والے بم دھماکے جیسے مزید واقعات رونما ہوتے بھی ہیں تو بھی یہ نئی پہچان تبدیل نہیں ہو گی۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا