’طورخم بارڈر 24 گھنٹے کھلا رہنے سے زیادہ فائدہ مریضوں کو ہے ‘

یہ بارڈر پہلے صبح پانچ بجے سے لے کر شام چھ بجے تک کھلا رہتا تھا لیکن اب اسے 24 گھنٹے آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

رات کے دس بج رہے تھے۔ سکیورٹی فورسز کے جوان بارڈر کے دونوں جانب چوکنا کھڑے اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔ اسی دوران افغانستان سے ایک بزرگ خاتون کو سٹریچر پر ڈال کر علاج کے لیے پاکستان لایا جارہا تھا۔

یہ طورخم بارڈر ہے جہاں رات کے اس پہر بھی آپریشنز جاری ہیں کیونکہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ملحقہ اس سرحد کو 24 گھنٹے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔

طورخم بارڈر پر رات کے آپریشنز کو دیکھنے کے لیے خصوصی اجازت ملنے کے بعد میں پشاور سے روانہ ہوا اور شام سات بجے کے قریب طورخم بارڈر پہنچ گیا۔

یہ بارڈر پہلے صبح پانچ بجے سے لے کر شام چھ بجے تک کھلا رہتا تھا لیکن اب اسے 24 گھنٹے آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا ہے۔بارڈر کی دونوں طرف سے لوگوں کی آمدورفت جاری تھی جبکہ سامان سے لدے ٹرک بھی پاکستان سے افغانستان اور وہاں سے پاکستان آرہے تھے۔

بارڈر پر موجود ایک سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ رات کے نو، دس بجے تک لوگوں کا رش رہتا ہے اور اس کے بعد اس میں کمی آجاتی ہے کیونکہ اس کے بعد لوگ کم ہی سفر کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ رات کے وقت بارڈر کھلا رہنے کے باعث اُن لوگوں کو زیادہ سہولت ہوتی ہے، جن کا کوئی عزیز بیمار ہو اور انہیں علاج کی غرض سے پاکستان لے کر آنا ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک اہلکار نے بتایا: ’مریضوں اور بزرگوں کے لیے ہم نے بہت نرمی کر رکھی ہے۔ حتیٰ کہ اگر ضروری دستاویزات میں سے کچھ موجود نہ بھی ہوں تو مریضوں کو بارڈر کراس کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔‘

بارڈر کی زیرو لائن پر مریضوں کے لیے خصوصی لین کا بندوبست کیا گیا ہے۔ اسی لین پر پاکستان کی جانب سے نرسنگ کا عملہ بھی موجود ہوتا ہے، جو مریض کی ضروری دستاویزات چیک کرنے کے علاوہ ضرورت پڑنے پر انہیں ابتدائی طبی امداد بھی فراہم کرتا ہے۔

اسی لین کی دائیں جانب پاکستان  کی جانب سے ایمبولینسیں کھڑی رہتی ہیں جو بارڈر سے مریضوں کو قریبی ہسپتالوں میں منتقل کرتی ہیں۔ یہ مریض زیرو لائن کے اُس پار افغانستان کی ایمبولینس سروس میں بارڈر تک لائے جاتے ہیں۔

بارڈر حکام کے مطابق 24 گھنٹے بارڈر کھولے جانے سے مسافروں کی تعداد میں 30 سے 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پہلے 13 سے 14 ہزار لوگ دونوں جانب سے بارڈر کراس کرتے تھے اور اب یہ تعداد 18 سے 19  ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

افغانستان سے پاکستان آنے والے بیشتر لوگوں نے یہی کہا کہ 24 گھنٹے بارڈر کھولنے سے سب سے زیادہ فائدہ مریضوں کو ہوگا۔

پاؤں سے محروم ایک بزرگ شخص نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں اُس وقت زیادہ مشکل پیش آتی تھی جب کسی مریض کو ایمرجنسی میں پاکستان منتقل کرنا ہونا تھا۔

انہوں نے بتایا: ’میں ابھی رات کے دس بجے پاکستان جا رہا ہوں اور مجھے کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، بارڈر کھولنے کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے۔‘

تجارت پر کیا اثر پڑے گا؟

طورخم بارڈر کھولنے سے تاجر بھی خوش نظر آرہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پہلے اگر 24 گھنٹوں میں ایک ٹرک افغانستان سے پاکستان جاتا تھا تو اب دو ٹرک جاتے ہیں۔

ایک ٹرک ڈرائیور طارق خان نے بتایا کہ اس سے پہلے شام ہوتے ہی بارڈر بند کردیا جاتا تھا، لیکن اب میں دو ٹرپ لگاتا ہوں۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’پہلے ایک ٹرپ کے مجھے 70 ہزار ملتے تھے، اب ڈبل مل رہے ہیں اور بارڈر کھولنے کا ہمیں یہی فائدہ ہو رہا ہے۔‘

بارڈر پر موجود کسٹم کلکٹر عثمان عزیز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بارڈر پر تجارت کا حجم 40 سے 50 فیصد زیادہ ہونے کا امکان ہے اور چونکہ بارڈر کو 24 گھنٹے کے لیے کھولے ہوئے ابھی ایک مہینہ بھی پورا نہیں ہوا تو اس کا درست اندازہ آنے والے دنوں میں ہوجائے گا۔

خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس کے 12-2011 کے اعداد و شمار کے مطابق طورخم بارڈر پر تجارت کا حجم دو ارب ڈالر سے زائد ہے۔

عثمان عزیز کے مطابق یہ حجم تین سے چار ارب ڈالر تک جانے کی توقع ہے کیونکہ پہلے 500 کے قریب مال بردار گاڑیاں دونوں جانب سے گزرتی تھیں اور اب یہ تعداد تقریباً دگنی ہوگئی ہے۔

24 گھنٹے آپریشنز کے لیے انتظامات کی صورت حال

طورخم بارڈر پر امیگریشن کاؤنٹر، فیڈرل انویسٹی گیشنز کاؤنٹر، پاسپورٹ کاؤنٹر اور کسٹم کاؤنٹر پر اہلکار موجود تھے اور لوگوں کی رہنمائی کر رہے تھے۔

دوسری جانب ٹرک ٹرمینل پر موجود سکینر بھی گاڑیوں کو سکین کرکے آگے جانے کی اجازت دے رہے تھے، جہاں ایک اور کاؤنٹر پر کچھ دیگر دستاویزات چیک کی جاتیں اور پھر انہیں جانے کی اجازت دے دی جاتی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان