میچ تو جیتے مگر مصباح سے بولڈ فیصلے کی توقع مشکل

بہتر ہوتا اگر عابد علی کو کھلایا جاتا جنہوں نے تازہ تازہ ڈبل سنچری بنا کر سلیکٹروں کو جگانے کی کوشش کی تھی، لیکن آپ مصباح سے کبھی توقع نہیں کرسکتے کہ وہ کوئی بولڈ فیصلہ کریں گے۔

وہاب ریاض، کوچ مصباح ا لحق  (دائیں)سے بات کرتے ہوئے۔ (اے ایف پی)

ایک روزہ میچوں کی رواں سیریز کے دوسرے میچ میں پاکستان نے سری لنکا کو 67 رنز سے شکست دے دی۔ ایک انتہائی گرم اور حبس آلود شام میں نیشنل سٹیڈیم کسی اَپ سیٹ کا سامنا تو نہ کرسکا لیکن کراچی کا میدان بابر اعظم کی ایک دلکش اننگز ضرور دکھا گیا۔

نوجوان بابر اعظم نے کم عرصے میں جس طرح دنیا بھر میں اپنی پراعتماد بیٹنگ کا لوہا منوایا ہے، اس سے کرکٹ ماہرین انہیں جاوید میاں داد سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ وکٹ کے دونوں طرف جب وہ بڑی سہولت سے ڈرائیو کرتے ہیں تو بہت سے لوگوں کو ان میں ماضی کے کئی بڑے بیٹسمینوں کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن نقادوں کی نظر میں ان کی زیادہ تر بڑی اننگز کمزور ٹیموں کے خلاف ہیں یا پھر ایشیا کی سست وکٹوں پر۔

گذشتہ ورلڈ کپ میں اگرچہ انہوں نے پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنائے اور نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے خلاف خوبصورت باریاں کھیلیں لیکن بھارت اور ویسٹ انڈیز کے خلاف اُس وقت ناکام ہو گئے جب ٹیم کو اشد ضرورت تھی۔

سری لنکا کے خلاف ان کی سنچری ماہرینِ کرکٹ کی نظر میں ایک متوقع اننگز تھی کیونکہ موجودہ دورے پر آئی ہوئی سری لنکا کی ٹیم اپنے معیار کے حساب سے کسی کلب کی ٹیم نظر آتی ہے۔ زیادہ تر وہ کھلاڑی ہیں جنہیں عام حالات میں موقع نہیں مل سکتا تھا لیکن بڑے کھلاڑیوں کے انکار نے ان کا سورج طلوع کر دیا۔

پاکستان کی بیٹنگ کمزور بولنگ اٹیک کے خلاف کوئی اتنی خاص نظر نہ آئی۔ اوپنروں کا محتاط انداز اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ وہ محض اگلے میچ کے لیے جگہ پکی کر رہے ہیں۔ فخر زمان کی ٹائمنگ اور فٹ ورک قطعاً ان کی جگہ ثابت نہیں کر رہا تھا۔ تیسرے درجے کے بولروں کے خلاف وہ اور امام الحق پریشان نظر آئے۔ بہتر ہوتا اگر ان میں سے ایک کی جگہ عابد علی کو کھلایا جاتا جنہوں نے تازہ تازہ ڈبل سنچری بنا کر سلیکٹر کو جگانے کی کوشش کی تھی کہ ان کو بھی موقع دے دیا جائے لیکن آپ مصباح سے کبھی توقع نہیں کرسکتے کہ وہ کوئی بولڈ فیصلہ کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ ایک آسان فیصلہ تھا کیونکہ شدید گرمی میں بولنگ اور فیلڈنگ آسان نہ تھی لیکن پھر بھی بابر اعظم جب تک کریز پر نہ آئے، اوپنروں کی حد درجہ احتیاط کے باعث رن ریٹ رک رک کر چلتا رہا۔

پاکستان کی خوش قسمتی رہی کہ سری لنکا کی فیلڈنگ بھی واجبی ہی تھی، جس سے رنز آسانی سے ملتے رہے ورنہ بات 250 سے آگے نہ بڑھتی۔

پاکستان نے میچ میں افتخار احمد کو نئے محمد حفیظ کا نام دیتے ہوئے شامل کیا۔ افتخار ہمیشہ سے مصباح کے پسندیدہ کھلاڑی رہے ہیں، جو جگہ نہ بنتے ہوئے بھی زبردستی انگلینڈ کے خلاف 2016 میں ٹیسٹ کھیلے اور ناکام رہے تھے۔ آج کے میچ میں بھی وہ کوئی کارنامہ تو نہ دکھا سکے مگر 32 رنز بنا کر اگلے میچ کے لیے جگہ بنا گئے۔

پاکستان کی بولنگ نے کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی۔ خاص طور سے وننگ بولر شاداب سراسر ناکام رہے اور جس طرح جے سوریا اور شنکا نے ان کو مارا اس سے پتہ چل رہا تھا کہ ان کا دن نہیں ہے۔ لیکن طویل عرصے سے باہر بیٹھے ہوئے عثمان شنواری نے ایک سست اور جمود کی شکار بیٹنگ وکٹ پر محنت سے بولنگ کرکے پانچ شکار کر لیے اور مین آف دا میچ کا ایوارڈ بھی لے اڑے۔

سری لنکا کے بیٹسمین تجربہ نہ ہونے کی قیمت دے کر اگرچہ 67 رنز سے میچ ہار گئے لیکن مڈل آرڈر میں جےسوریا نے دوسرے بیٹسمینوں کو سکھلا دیا کہ اگر سکون سے بیٹنگ کی جائے تو پاکستان کی مضبوط ٹیم کو ہرایا جاسکتا ہے۔

دس سال کے طویل عرصے کے بعد کراچی میں کھیلا جانے والا انٹرنیشنل میچ مقامی تماشائیوں کو متوجہ نہیں کرسکا۔ چند ہزار تماشائیوں نے ہی بابر اعظم کی قابلِ دید سنچری کو دیکھا اور داد دی۔ کرکٹ کے شائقین کی بڑی تعداد اس میچ سے لاتعلق رہی جس کی ایک وجہ تو کمزور سری لنکا کی ٹیم ہے تو دوسرا سخت سکیورٹی انتظامات اور حبس زدہ گرمی بھی، جس نے لوگوں کو گھروں میں پسینے میں شرابور کر رکھا ہے تو سٹیڈیم کون آتا۔

ٹیم کی مجموعی کارکردگی ایسی نہ تھی جس پر واہ واہ کی جائے۔ کپتان سرفراز نے میچ کے بعد انٹرویو میں اعتراف بھی کیا کہ ہم بہتر کرسکتے تھے لیکن مصباح الحق شاداں و فرحاں ہیں کہ ڈیبیو فاتحانہ رہا۔۔۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ