ملک کے اندر ہی نقل مکانی کرنے والا خاندان غیر ملکی کیسے ہوگیا؟

قیامِ پاکستان سے قبل کرم ایجنسی کے رہائشی خاندان نے پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں ہجرت کی اور وہیں رہائش اختیار کرلی، جنہیں اب نادرا کی جانب سے غیرملکی قرار دے دیا گیا ہے۔

درے خان کے مطابق  ان کے خاندان کا کوئی بھی فرد دوبارہ کبھی نہ تو کرم ایجنسی گیا اور نہ ہی ان کا افغانستان جانا ہوا ہے۔ (تصویر: ارشد چوہدری)

1942 میں قیامِ پاکستان سے قبل کرم ایجنسی کے رہائشی خاندان نے پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں ہجرت کی اور وہیں رہائش اختیار کرلی۔ خاندان کے سربراہ نواب خان نے 1974 میں شناختی کارڈ بنوایا تو اس پر بھی رہائشی پتہ سیالکوٹ درج کیا گیا جبکہ اس خاندان کے 40 افراد کو سرکاری دستاویزات بھی جاری ہوتی رہیں۔

بعد ازاں پاکستان میں شناختی کارڈ کمپیوٹرائز ہوئے تو اس خاندان کے درے خان نے اپنا شناختی کارڈ بنوایا جو نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے انہیں 2015 میں جاری ہوا اور ان کے خاندان کا نمبر بھی جاری کر دیا گیا، لیکن 2018 میں درے خان اور ان کی والدہ بلقیس بی بی کا شناختی کارڈ بلاک کر دیا گیا۔

جب انہوں نے نادرا آفس سے معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ غیر ملکی (افغانی) ہونے کی بنا پر ان کے شناختی کارڈ بلاک کردیے گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

متاثرہ خاندان نے سیشن عدالت سے رجوع کیا کہ ان کے شناختی کارڈ بحال کرکے عمرے کی ادائیگی کے لیے پاسپورٹ جاری کرنے کا حکم دیا جائے، جس پر عدالت نے نادرا کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے ان کے شناختی کارڈ بحال کرکے پاسپورٹ حکام کو ان کے پاسپورٹ جاری کرنے کا حکم دے دیا۔

درے خان کے مطابق نادرا کی جانب سے عدالت میں پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) نے اس خاندان کو افغانی قرار دیا ہے، جس کی بنیاد پر ان کے شناختی کارڈ بلاک کیے گئے۔

اگرچہ عدالتی حکم پر 2018 میں ان کے شناختی کارڈ بحال کرکے پاسپورٹ جاری کر دیے گئے لیکن جب وہ عمرے کی ادائیگی کے لیے ایئرپورٹ پہنچے تو عملے نے بتایا کہ ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک ہیں اس لیے وہ سعوی عرب نہیں جاسکتے۔

ان دونوں ماں بیٹے کے شناختی کارڈز اور پاسپورٹ بلاک کیے جانے پر انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو عدالت نے نادرا اور محکمہ داخلہ کو نوٹس جاری کردیے اور 15 دن میں وضاحت طلب کرلی۔

متاثرہ خاندان کو غیر ملکی کیوں قرار دیا گیا؟

غیر ملکی قرار دیے گئے پاکستانی خاندان کے موجودہ سربراہ درے خان نے بتایا کہ ان کے آبا و اجداد نے قیامِ پاکستان سے قبل 1942 میں کرم ایجنسی، خیبر پختونخوا سے سیالکوٹ کے علاقے ڈسکہ میں ہجرت کی کیونکہ کرم ایجنسی میں ان کے خاندانی جھگڑے چل رہے تھے۔ ان کے بزرگوں نے سیالکوٹ میں کاروبار شروع کیا اور بچوں کو تعلیم دلوائی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے انہیں کبھی یہ نہیں سننا پڑا کہ وہ غیر ملکی ہیں۔ دوسری جانب ان کے خاندان کا کوئی بھی فرد دوبارہ کبھی نہ تو کرم ایجنسی گیا اور نہ ہی ان کا افغانستان جانا ہوا ہے۔

درے خان کے مطابق  دراصل ان کے سیاسی مخالفین نے، 2018 میں اُس وقت جب افغانیوں کی نشاندہی ہو رہی تھی، تو ان کے فیس بک اکاؤنٹ سے ان کی تصویر حاصل کی اور ایک فارم اپنی طرف سے بھر کے نادرا میں جمع کرا دیا کہ یہ خاندان افغانی ہے۔ اسی فارم کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف غیر ملکی ہونے پر شہریت نہ دینے کی کارروائی جاری ہے جبکہ تمام دستاویزی ثبوت نادرا حکام کو پیش بھی کیے جاچکے ہیں۔

درے خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اور ان کا خاندان نہ صرف رجسٹرڈ ہے بلکہ باقاعدگی سے ایف بی آر کو ٹیکس بھی جمع کروایا جاتا ہے۔ کسی بھی تھانے میں ان کے خلاف جرائم کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، لیکن عدالتی احکامات کے باوجود ان کے شناختی کارڈز اور پاسپورٹ منسوخ کر دیے گئے ہیں۔

قانون دان شعیب چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں سوال اٹھایا کہ جب ایک شہری کو جاری ہونے والی بنیادی شناخت یعنی ڈومیسائل منسوخ نہیں ہوا تو شناختی کارڈ کیسے منسوخ ہوسکتا ہے؟ دوسرا قیامِ پاکستان سے قبل ہجرت کرکے آنے والوں کے حوالے سے آئینِ پاکستان میں شہریت منسوخ کرنے یا انہیں غیر ملکی قرار دینے کا ذکر ہی نہیں تو نادرا کیسے کسی کو شہریت سے محروم کر سکتا ہے؟

اس قسم کی مشکلات کا شکار دیگر خاندان

شعیب چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان آنے والے افغان شہریوں کی چھان بین کے دوران بے شمار ایسے خاندان بھی مشکلات کا شکار ہیں جو قیامِ پاکستان سے قبل پاکستان میں ہجرت کرکے آئے اور مستقل رہائشی بن گئے۔ اب انہیں بھی پاکستانی ثابت کرنے کے لیے عدالتوں سے مدد حاصل کرنا پڑ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ میں کروڑوں روپے کا کاروبار کرنے والے تاجر فرہاد خان اور ان کے خاندان کو افغان شہری قرار دے کر چند ماہ پہلے ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیے گئے تھے۔ انہیں بھی لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرکے خود کو پاکستانی شہری تسلیم کرانا پڑا تھا۔

شعیب چوہدری کے مطابق وزارتِ داخلہ اور نادرا میں بھی سینکڑوں ایسی درخواستیں موجود ہیں جو قیامِ پاکستان سے قبل ہجرت کرکے یہاں مختلف شہروں میں آباد ہوئے اور کئی شعبوں سے وابستہ ہوکر روزگار کما رہے ہیں، انہیں بھی دستاویزی ثبوت ہونے کے باوجود خود کو پاکستانی قرار دلوانا دشوار ہوچکا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شہریت ایکٹ 1951 کی دفعہ 16 کے تحت صرف وفاقی حکومت ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق شہریت منسوخ کرسکتی ہے لیکن اس کے لیے بھی ٹھوس وجہ ہونا ضروری ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان