پاکستانی دیوانے کا امریکہ میں خواب؟

رہے میرے بھارت سے الفت رکھتے چند پاکستانی دوست، تو میں ان پر یہ واضح کر دوں کہ ہندوستان کی تقسیم ضروی تھی۔ امن یکطرفہ نہیں ہوتا اور نہ ہی جذبہِ خیر سگالی کا اظہار صرف ہمارے پاکستان پہ فرض ہے۔

(اے ایف پی)

ہوش کرو دوستو!

میں پاکستان اور دنیا بھر میں سول بالادستی، مثبت جمہوری رویوں، انسانی برابری اور یگانگت کا قائل ہوں۔

حبِ جرنیل شاہی ہو، حبِ عمران ہو، حبِ نواز ہو یا حبِ بھٹو میرے لیے پاکستان کے عوام کا اقتصادی مفاد اور آسودگی کا نمبر سب سے پہلے آتا ہے۔ میرا پاکستان میرے پاکستانی ہیں۔

عمران خان صاحب لاکھ ہینڈسم اور ہیرو بنیں اور جنرل باجوہ صاحب جرنیلی اختیار اور اس کی ایکسٹینشن کی تڑپ میں خود کو ملک کا لاکھ خیرخواہ گِنوائیں، ان سب معاملات سے پہلے پاکستانیوں کی بہتری کے لیے نظر آتا ہوا کام ہونا چاہیے۔ اگر ان دونوں کو ایسا کوئی کام کرنا نہیں آتا ہے تو جنہیں یہ کام آتا ہے، ان سے پوچھ کر سیکھ لیں۔

ورنہ کرپٹ نوازشریف و زرداری اور آپ کے اس نئے سیٹ اپ میں فرق کیا ہوا۔ خالی باتوں سے کب پیٹ بھرتا ہے۔

خوشحالی وہ ہے جو کسی جرنیل یا پسندیدہ سیاستدان کا ذاتی خواب و مفاد نہیں ہو بلکہ عوام کی مجموعی خوشحالی ہو۔ جو ملک کے جی ڈی پی اور فارن ایکسچینج کو بھارت کے اتنا تو مقابل لے آئے کہ کوئی بددماغ ہندوتوا کا پرچاری کسی امریکی صدر کے ساتھ مل کر ہمیں بدحال منگتا نہ کہہ سکے۔ ہمارے پاس پیسے ہوں، کھپت کی بڑی منڈیاں ہوں اور بین الاقوامی منڈیوں میں سیل کے لیے مناسب قیمت پر مطلوبہ اشیاء ہوں۔ تب ہی ہمارے لیے بھی ریڈ کارپٹ بچھیں گے۔

بھلی حکومت تو وہ ہے جو کہ امریکہ، جاپان، جرمنی، فرانس، چائنہ یا برطانیہ کی طرح پاکستان کو مضبوط کاروباری اور معاشی طاقت بنا کر جلد از جلد بھارت کے برابر یا اس سے بھی آگے لے جائے۔

یہ کیا حکومت اور عسکری انتظام ہوا جو کہ پاکستانی قوم کو بدحالی، بین القوامی تنہائی اور اقتصادی بحران کے دلدل میں دھکیل کر کشمیر اور پاکستان کی قومی حمیت کو نِت نئے قرضوں اور امداد کے عوض بیچ رہا ہے۔

جو نت نئی عسکری ڈاکٹرائن بنا کر پاکستان کو ذلالت، معاشی میلٹ ڈاؤن اور ناکامی کے گڑھے میں گہرے سے گہرا دھکیل رہا ہے اور اس ناکامی کا سارا ملبہ ماضی کے سیاستدانوں پر ڈال رہا ہے۔

بھئی اب تو سب کچھ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ بازیاب کریں چوروں سے سب سارا مال دعووں کے مطابق ورنہ صاف کہیں کہ آپ جھوٹے اور نااہل ہیں۔

اقتدار کے حصول اور اس کی کی طوالت کے لیے مغرب و عرب کے آقاؤں کے حکم پر چین سے بلاوجہ کی مخاصمت پال کر ڈیڑھ دو سال پہلے تک تیزی سے حجم میں بڑھتی ہوئی پاکستانی معیشت کو سکیڑتے نظر آتے جرنیلی اور عمرانی گروہ نے لوگوں کو خواب بہت مہنگے کر کے بیچے ہیں۔ انہیں اب کچھ نہ کچھ تو ایسا ڈیلیور کرنا ہو گا جس کا اقرار پاکستانی عوام اور باقی دنیا کرے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمارے لوگ مودی جیسے مسلمان اور پاکستان دشمن کے طعنوں سے دل گرفتہ ہو کر رفتہ رفتہ جان رہے ہیں کہ آزاد اور خودمختار ریاستِ پاکستان کے جھنڈے تلے عوامی خوشحالی، دولت اور معاشی طاقت کا حصول بہت ضروری ہے۔

اور خوشحالی وہ ہے جس کا کوئی عسکری اور عمرانی بھونپو نہیں بلکہ راہ چلتا ہر شخص اقرار کرے۔ جس سے صنعت، روزگار، ماہر افرادی قوت اور عوام کی مجموعی قوتِ خرید بڑھے۔ جس سے لوگوں کی کوالٹی آف لائف بہتر ہو۔

پاکستان کی عزت اس کے رہنماؤں کی واشنگٹن ڈی سی ایمبیسی، وائٹ ہاؤس اور پینٹاگان میں لی گئی پر اعتماد تصویریں نہیں بلکہ پاکستان کی عزت تو کشمیریوں اور پاکستانیوں کی امنگوں کا عالمی سطح پر احترام و احساس ہونے میں ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اب پاکستان میں 72 سال کے بعد سب ایشوز پر اختلافِ رائے کی گنجاش ہونی چاہیے۔ بس جب قوم کی جینون کیمپینز ہو تو وہاں سب اختلاف بھلا کر اکھٹا ہو جانا چاہیے۔

رہے میرے بھارت سے الفت رکھتے چند پاکستانی دوست، تو میں ان پر یہ واضح کر دوں کہ ہندوستان کی تقسیم ضروی تھی۔ امن یکطرفہ نہیں ہوتا اور نہ ہی جذبہِ خیر سگالی کا اظہار صرف ہمارے پاکستان پہ فرض ہے۔

آج بھارت کا سو فیصد نہیں تو 70 سے 80 فیصد ہندو، مسلمانوں، پاکستانیوں اور کشمیریوں سے اپنی نفرت کا برملا اظہار کر رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے خلاف بھارتی موقف اور بھارتی پرواپیگینڈا کی حمایت کیسی؟

یار پاکستانی بن جاؤ۔ ہندوستان نے تو ابھی تک عدنان سمیع خان کو قبول نہیں کیا تمھیں یا مجھے کیا کرے گا۔ وہ تو پچاس ساٹھ سال پہلے بنگلہ دیش سے آسام آئے لاکھوں بنگالی مسلمانوں کی شہریت چھین کر انھیں کیمپوں میں بند کر رہا ہے تو تم کس کھیت کی مولی ہو۔

اپنے گھر میں گڑبڑ ہے تو اسے سب کو ساتھ ملا کر ٹھیک کرو نہیں ہوتا تو بار بار کوشش کرو، غصہ جانے دو۔ اپنے وطن سے بغض کیسا؟ پاکستان کے پڑوسی بھارت کو ہندوتوا کا سخت بخار ہوا ہے۔

پاکستان میں رہو گے یا دنیا میں کہیں بھی جاؤ گے پاکستانیت کے بغیر تمھاری کوئی قابلِ قدر پہچان نہیں ہو گی۔

میں نے امریکہ میں صدیوں سے آباد افریقہ سے لائے گئے سیاہ فاموں کو اپنی روٹس کے لیے بیتاب اور آبدیدہ دیکھا ہے۔ تم کیوں خود کے اور پاکستانی کے لوگوں کے بدمزہ سی بھارت نوازی بیچتے ہو جبکہ ہندوستان کا ہندو تمھاری تیسرے درجے کی شودر پہچان سے زیادہ کسی پہچان پہ کبھی راضی نہیں ہو گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ