ٹائی ٹینک بنانے والی کمپنی کو ڈوبنے سے بچا لیا گیا

معروف بیلفاسٹ شپ یارڈ ہیرلڈ اینڈ وولف جس نے شہرہ آفاق بحری جہاز ٹائی ٹینک بنایا تھا کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے۔

شپ یارڈ کے انتظامی ناروے کی کمپنی ڈولفن ڈرلنگ نے شپ یارڈ کا خریدار نہ ملنے پر اپنے آپ کو دیوالیہ قرار دینے کی درخواست دے دی (اے ایف پی)

معروف بیلفاسٹ شپ یارڈ ہیرلڈ اینڈ وولف جس نے شہرہ آفاق بحری جہاز ٹائی ٹینک بنایا تھا کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے۔

اس بات کا اعلان منگل کو برطانوی انرجی افراسکرکچر کمپنی انفراسٹراٹا نے کیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہیرلڈ اینڈ وولف کو دیوالیہ ہونے سے بچانے والی برطانوی کمپنی نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ ماضی کے صنعتی آئرلینڈ کا بڑا ادارہ 60 لاکھ پاؤنڈ(74 لاکھ ڈالر،68 لاکھ یورو)میں خریدا گیا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ شپ یارڈ کے بڑے اثاثے بلفاسٹ بندرگاہ میں کثیرالمقاصد کارخانے، زمین اور گودیاں ہیں جو توانائی کے بنیادی ڈھانچے کے لیے مثالی ہیں۔

1912 میں سمندر میں ڈوب جانے والے بحری جہاز ٹائی ٹینک سمیت ہارلینڈ اینڈ وولف نے اس سے ملتے جلتے اولمپک اور بریٹینک نامی دو جہاز بھی تیار کیے اور دوسری عالمی جنگ کے دوران تقریباً 150 جنگی بحری جہاز بھی فراہم کیے۔

بعد میں شپ یارڈ میں جہاز سازی ترک کر دی گئی اور اب تک ہوا سے بجلی بنانے اور سمندری انجینیئرنگ کے منصوبوں پر کام کیا جاتا رہا۔

ہارلینڈ اینڈ وولف جو 1861 میں قائم کیا گیا تھا، اگست میں بدانتظامی کا شکار ہوگیا۔ شپ یارڈ کے انتظامی ناروے کی کمپنی ڈولفن ڈرلنگ نے شپ یارڈ کا خریدار نہ ملنے پر اپنے آپ کو دیوالیہ قرار دینے کی درخواست دے دی۔

ہارلینڈ اینڈ وولف کی کرینیں دہائیوں تک بلفاسٹ کے افق پر دکھائی دیتی رہیں۔ 20ویں صدی کے شروع میں یہاں 30 ہزار لوگ کام کرتے تھے لیکن دیوالیہ ہونے سے پہلے ملازمین کی تعداد کم ہو کر صرف 130 رہ گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انفراسٹراٹا نے کہا: ’79 ملازمین جو اس سال کے آغاز میں رضاکارانہ طور پر ادارے سے الگ نہیں ہوئے تھے کو خریداری کا عمل مکمل ہونے کے بعد کام جاری رکھنے کی اجازت ہوگی۔‘

’انفراسٹراٹا کے بورڈ  نے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں پیشرفت کے ساتھ ساتھ اگلے پانچ سال میں کارکنوں کی تعداد میں کئی سو کے نمایاں اضافے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا