عمران خان کو کیا کرنا چاہیے؟

اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان کی شخصیت کرشماتی اور طلسماتی ہے جس نے کرکٹ سے لے کر خدمت خلق اور پھر سیاست تک میں معجزاتی طور پر ان کا ساتھ دیا۔

24 ستمبر کو  پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نیو یارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کواٹر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران (اے ایف پی)

وزیر اعظم عمران خان کو بہت بہت مبارک ہو کشمیر پر اقوام عالم کے سامنے کیا دلیل سے بھرپور مقدمہ لڑا۔ جنگی محاذ کے بعد سفارتی محاذ پر بھی بھارت کے پر کاٹ دیے۔ اب تک تو وزیر اعظم سینکڑوں مبارکبادیں وصول کر چکے، تقریر کی لذت کا خمار بھی لوگوں کے ذہنوں سے آہستہ آہستہ اترنے لگا لیکن یہ تو ضرور ہوا کہ کشمیر نہیں تو عمران خان نے دل تو ضرور جیت لیے۔

اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان کی شخصیت کرشماتی اور طلسماتی ہے جس نے کرکٹ سے لے کر خدمت خلق اور پھر سیاست تک میں معجزاتی طور پر ان کا ساتھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار کے پہلے سال میں لگاتار بے حساب غلطیوں کے باوجود تاحال عمران خان کا طوطی بول رہا ہے لیکن یہ بھی نگاہ میں رہے کہ گلیمر کی چکاچوند کرکٹ میں تو تاحیات کام آ سکتی ہے، سیاست میں نہیں۔ اسوقت تک وزیر اعظم عمران خان اپنے طلسماتی امیج کی بنا پر کسی نہ کسی صورت اپنے ووٹر اور عوام کے دل میں گھر کیے ہوئے ہیں۔ یہ بھی کوئی معجزہ ہے کہ سیاست میں جب جب عمران خان پر کوئی کڑا وقت آیا یا اس نے کوئی غلط قدم اٹھایا، کوئی نہ کوئی صورت ایسی بر آئی کہ عمران خان کو سہارا مل گیا۔ اب حالیہ مثال لے لیجیئے، اقوام متحدہ اجلاس کیلئے امریکہ جانے سے قبل حکومت کیسے کڑے شکنجے میں کسی تھی، کشمیر کی ایک تقریر نے عوام کا عمران خان سے پیار اور اعتماد بڑھا دیا۔ لیکن پہلے لکھ چکی کہ یہ وقتی خمار بھی آہستہ آہستہ اترنے لگا ہے۔ ڈولتی معیشت اور ڈوبتی گورننس کی کشتی کو سنبھالا محض الفاظ کے چپو سے نہیں دیا جا سکتا۔ کرشمہ اور طلسم بھی عوامی ہیجان کے سونامی کا رخ موڑنے میں زیادہ دیر کام نہ دے سکیں گے۔

تو پھر عمران خان کو اب کیا کرنا چاہیے؟

محض ایک ہی سال کے نومولود عرصے میں وفاقی کابینہ میں دوسری بار تبدیلی کچھ مثبت عندیہ نہیں۔ بیوروکریسی پہلے ہی کام سے ہاتھ چھوڑے بیٹھی ہے۔ ہر چند ماہ بعد سیکرٹری کو علم ہو کہ اس کا وزیر بدلنے والا ہے توکام خاک چلے گا۔ وزیر اعظم آفس کو گلہ ہے وزراء اور وزارتیں کام نہیں کر رہیں۔ وزیر کام کیسے کریں گے جب ان کے ماتحت بیوروکریسی ہی ان کا ساتھ نہیں دے گی۔ سونے پہ سہاگہ کچھ وزراء اور مشیروں کا رویہ ۔۔۔۔۔۔۔ الا ماشاءاللہ ۔۔۔۔۔۔ بیوروکریسی کو وزیر اعظم کا مزید اعتماد درکار ہے۔ وزراء اور مشیروں کا رویہ اور قبلہ بھی جناب وزیر اعظم صاحب کو ہی درست رکھنا ہے۔ بیوروکریسی کے منہ زور گھوڑے کو چابک سے نہیں پیار اور آسانی کی زبان سے چلانا ہے۔ اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی سنیں۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس تو تواتر سے ہو رہے ہیں لیکن اراکین قومی و صوبائی اسمبلی سے رابطہ مزید بڑھائیں۔ یہ آپ کے وسیع تر کان اور آنکھیں ہیں۔ انہیں یہ کہہ کر ڈانٹیں نہیں کہ چونکہ یہ دوسری جماعتوں سے آئے ہیں تو ماضی کے حکمرانوں کے غلط اقدامات پر کیوں نہ بولے۔ یہی اصول لاگو ہو تو آدھی پی ٹی آئی تو اسی پر فارغ ہو جائے گی۔

عمران خان یہ بھی واضح کر لیں کہ عوامی مسائل کا ذمہ دار آخر کسے قرار دینا ہے؟ سابقہ حکومتوں کو یا اپنی ٹیم کے کارکردگی نہ دکھانے کو؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر آپ ایک سال میں دو دو بار تبدیلی کریں گے تو بارِ الزام آپ پر ہی آئے گا کہ عوامی مسائل حکومت کے کارکردگی نہ دکھانے کی وجہ سے ہیں اور اگر وزیر اعظم بار بار وفاقی کابینہ میں تبدیلی کر سکتے ہیں، پنجاب کابینہ میں تبدیلی کا فیصلہ کر سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ پنجاب میں عثمان بزدار کیوں تبدیل نہیں ہو سکتے؟ مجھے یقین ہے کہ اب تو خلوت میں وزیر اعظم صاحب خود کو بھی یقین نہیں دلا سکتے ہوں گے کہ عثمان بزدار کے سکور کارڈ میں آخر ایسا کیا ہے کہ تاحال وہ اوپننگ پوزیشن پر برقرار ہیں۔ تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ وزراء کی کارکردگی تو وزیر اعظم عمران خان کو خوب کھٹکتی ہے لیکن وزیر اعلی مسلسل صفر کے سکور پر کھیل کر گیندیں بھی ضائع کر رہے ہیں اور تماشائی بھی بور ہو چکے۔ اپنے گزشتہ کالم میں بھی تحریر کیا تھا کہ آج نہیں تو کل وزیر اعظم خان کو اپنے پنجاب کے پسماندہ کپتان کو تبدیل کرنا ہی پڑے گا۔ نہ پنجاب میں کابینہ تبدیلی سے کوئی فرق پڑے گا نہ مرکز میں۔ اس کیلئے تبدیلی کہیں اور کرنی پڑے گی۔ عوام کو یاد ہے کہ کچھ ہی عرصہ پہلے تک وزیر اعظم عمران خان معاشی بدحالی پر گزشتہ حکومتوں پر برستے ہوئے کسی ماہر طبیب کی طرح کہتے تھے کہ کرپٹ حکمران معیشت کے کینسر کا علاج ڈسپرین کی گولی سے کر رہے ہیں۔ آج وزیر اعظم خود اسی مرض کا علاج ڈسپرین کی زائد المعیاد گولی سے کر رہے ہیں۔ معیشت تباہ ہو رہی ہے، کاروبار بند ہو رہے ہیں، لوگوں کا ذریعہ معاش چھن رہا ہے، مہنگائی لوگوں کے چھپر پھاڑ کر آسمان سے باتیں کر رہی ہے، ہر دوسرے تیسرے ہفتے چینی، آٹا، دالیں، گھی، پھل سبزی کی قیمتیں حکومتی مافیا کے لوگ من مرضی سے بڑھاتے چلے جا رہے ہیں، انتشار، افراتفری، بے یقینی میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ حکومت میں بیٹھے کچھ لوگ ہی اس حکومت کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ کیا وزیر اعظم اس سے لا علم ہیں؟

عمران خان کو فی الحال نہ مولانا فضل الرحمان سے خطرہ ہے نہ ن لیگ سے نہ پیپلز پارٹی سے، نہ کسی ڈیل سے نہ کسی دھرنے سے۔ گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ قوی امکان ہے مولانا کا دھرنا ملتوی ہو جائے یا منسوخ۔ اور اب تو کل ہی واضح ہو چکا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی فی الحال دھرنے سے متفق نہیں۔ اپوزیشن کے پاس سب سے بڑا ہتھیار وہی ہے جو عمران خان خود ان کے ہاتھ میں دے رہے ہیں۔ ناقص کارکردگی اور عوامی مسائل کے انبار کا۔ کاسمیٹک تبدیلیوں سے کام نہیں چلے گا۔ کینسر کا علاج ڈسپرین کی زائد المیعاد گولی سے نہ کریں۔ سوچ تبدیل کریں، رویہ تبدیل کریں، اصلی تبدیلی لے کر آئیں جہاں سے باس سٹراند آ رہی ہے۔ ڈیلیور کریں، عوام کو آسانی دیں، مہنگائی سے نجات دیں، روزگار دیں، بنیادی سہولیات دیں پھر دیکھیں آپ کا طلسم اور کرشمہ سونامی بن کر ہر دھرنے کو نگل جائے گا، ہر دن مبارک سلامت کی صدا آپ خود عوام کی زبان سے سنیں گے، لوگ آپ کو محض گفتار کا ہی نہیں کردار کا غازی بھی کہیں گے اور یہ وقتی خمار بھی نہ ہو گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ