رکشہ، دل کا دورہ اور پسماندگان

مکان کا کرایہ، بچوں کی فیس، بجلی گیس اور پانی کا بل، گھر کا راشن اور اسی طرح کی بنیادی ضروریات زندگی کو پورا کرتے کرتے وہ اس رات تقریباً تین بجے اپنا دل تھامے اس دنیائے فانی سے کوچ کر عدم کی وادیوں میں کھو گئے۔

شہاب، نایاب، فرخندہ اور حسین کے والد کو اس دنیا سے گئے دو ماہ ہو چکے ہیں۔ ان کے والد ایک ریٹائرڈ حولدار تھے اور پنشن پر گزارا نہ ہونے کے سبب رکشہ چلا کر گھر کی چھوٹی موٹی ضروریات پوری کرتے تھے۔

وہ دو مرتبہ دل کے دورے برداشت کر چکے تھے لیکن پھر بھی انہوں نے سگریٹ اور رکشہ چلانا نہ چھوڑا۔ کرتے بھی کیا امیر رشتہ دار آ کر رکشہ چھوڑنے کا مشورہ تو دے دیتے لیکن ان کے گھر کا خرچہ کیسے پورا ہوگا یہ ان کا درد سر نہ تھا۔ آئے روز خستہ حال گلی کوچوں کی بھیڑ میں رکشہ چلانا بلڈ پریشر آسمان تک پہنچانے کے مترادف ہے۔

جس رات ان کے والد پر تیسرا اور جان لیوا دل کا دورہ پڑا وہ اس شام کو ہی رکشے کی سواریوں میں کمی اور اور کام نہ ہونے کا دکھ اپنی بیوی سے شیئر کر چکے تھے۔ وہ ہمیشہ سے امیروں کی ڈھیر ساری دولت دیکھ کر خدا سے یہی شکوہ کرتے کہ اگر ذرا برابری برتی جاتی تو ہم غریبوں کا بھلا ہو جاتا۔

مکان کا کرایہ، بچوں کی فیس، بجلی گیس اور پانی کا بل، گھر کا راشن اور اسی طرح کی بنیادی ضروریات زندگی کو پورا کرتے کرتے وہ اس رات تقریباً تین بجے اپنا دل تھامے اس دنیائے فانی سے کوچ کر عدم کی وادیوں میں کھو گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بچوں کو یوں یتیم ہوتے دیکھ کر ننھیال والوں کا تو کلیجہ دھک سے رہ گیا مگر ددھیال والوں نے انہیں احساس کمتری کے مصنوعی چادر تلے جانے  سے بچانے کی خاطر ان کے اکلوتے چچا احمد سے نئے ماڈل کے موبائل فونز اور ٹیبلیٹ منگوا کر ان کے حوالے کیے۔ جن کے آتے ہی بچوں کو باپ کا غم جاتا دکھائی دیا اور ساتھ ہی انہوں نے پڑھائی کو بھی خیر باد کہہ دیا۔ جس کے نتیجے میں بڑا بیٹا شہاب ریاضی میں فیل ہوگیا۔

 نایاب اور فرخندہ کو بھی نت نئے ڈیزائن کے کپڑوں کا شوق بڑھنے لگا۔ اور چھوٹا بیٹا حسین جسے اس طرح کا کوئی تحفہ تو نہیں ملا البتہ وہ روز شام کو کپڑا لیے اپنے والد کے چھوڑے اکلوتے وارثت یعنی رکشے کو چمکا دیتا۔

ان کی خالہ سلمیٰ جو روزانہ شام کو ان کے گھر پکوڑے اور چائے کا سامان لیے پہنچ جاتی، حسین کو والد کا رکشہ صاف کرتے دیکھتی تو یہی سوچتی کہ اگلے مہینے کے اخراجات میں کمی لا کر وہ حسین کو شام کی لینگویج کلاسز میں ضرور داخلہ دلوائے گی۔ اور اپنے اسی وعدے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے حسین کی پڑھائی کا ذمہ اپنے سر لے لیا۔ اب روز شام کو حسین والد کا رکشہ صاف تو کرتا ہے ساتھ ہی رکشے کے ہر پرزے کا نام انگریزی میں دہراتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل