مولانا کا آخری فیصلہ؟

اب میں مولانا سے بھی یہی مطالبہ کرتا ہوں کہ اگر وہ دعوی کرتے ہیں کہ موجودہ اسمبلیاں ناجائز ہیں تو وہ قومی، صوبائی اور سینٹ کی نشستوں سے استعفے 27 اکتوبر سے پہلے دیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو یہ بات یقینی ہے کہ وہ دوغلے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

مفتی محمود کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمان ہر دور میں حکومت کا حصہ رہے (اے ایف پی)

موجودہ جمہور ناکام ہے اور اس ناکامی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم دائروں میں گھومتے رہتے ہیں اور آگے نہیں بڑھ رہے۔ دو ہزار تیرہ کے الیکشن کے صرف ایک سال کے بعد عمران خان نے ایک دھرنہ دیا اور نئے دائرے کی شروعات کیں۔

اس دھرنے کا مقصد بظاہر ذاتی مفاد میں سیاسی طاقت کا حصول تھا۔ اب 2018 کے الیکشن کے بعد بھی ایک نئے دائرے کا آغاز ہو رہا ہے اور مولانا فضل رحمان کا دھرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

اس جمہوریہ کی تعمیر میں مولانا کے والد صاحب مفتی محمود کا بھی حصہ ہے۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے 1973 کی آئین سازی میں حصہ بھی لیا اور اس پر دستخط بھی کئے۔ 1973 کا آئین شاید اس وقت ایک اہم ضرورت تھی اس لیے کہ قوم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے سے گزری تھی اور اسی اکھٹا کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس آئین کا فائدہ سب سے زیادہ مولانا مفتی محمود کی پارٹی اور خاندان نے اٹھایا۔

مفتی محمود کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمان ہر دور میں حکومت کا حصہ رہے۔ جنرل مشرف کے دور میں ایم ایم اے کی صوبائی حکومت خیبرپختونخوا میں قائم تھی۔ 2008 اور 2013 کے انتخابات میں مولانا حکومتی پارٹی کا حصہ رہے اور کشمیر کمیٹی کے علاوہ کئی وزارتیں بھی ان کے پاس تھیں۔ مولانا اور ان کا خاندان کئی دھائیوں سے ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، لکی مروت اور بنوں کے اضلاع میں مسلسل سیاسی نمائندگی کا شرف حاصل کرتا رہا ہے۔ ان اضلاع میں مولانا کے مدرسوں کے فارغ تحصیل امام مسجدوں کو چلا رہے ہیں اور یہی ان کی سیاسی طاقت کا سرچشمہ ہے۔

یہ تمام اضلاع پسماندگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ یہاں کے عوام مولانا کی سیاسی طاقت یا بصیرت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے مگر ان کا خاندان مالی طور پر بھی خوشحال ہے بلکہ اثرورسوخ بھی عروج پر ہے۔ بیٹا اور بھائی سب اسمبلیوں میں ہیں مگر وہ خود الیکشن ہار گئے جس کا دکھ یقیناً انہیں ہے۔ سیاسی انجینرز کے ساتھ بھی مولانا کا بہت پرانا گٹھ جوڑ ہے اور ہر الیکشن میں دھاندلی ہمیشہ ان کی حمایت میں ہوئی ہے۔ انہیں غصہ ان انجینرز پر بھی ہے کہ دھوکہ کیوں دیا۔

مولانا یہ اعلان کر چکے ہیں کہ موجودہ اسمبلیاں دھاندلی شدہ اور ناجائز ہیں۔ یہی دعوی 2013 میں جب عمران خان نے کیا تھا تو میں نے ان سے مطالبہ کیا کہ اپنی بات کی لاج رکھیں اور اسمبلیوں سے استعفی دے دیں۔ قوم نے دیکھا کہ کس طرح یہ دھرنے دینے والے اسمبلیوں کے مزے اڑاتے رہے مگر عوام کی زندگی اجیرن بنائے رکھی اور پورے پانچ سال سیاسی غیریقینی کی صورت حال رہی جس سے ملک کا بے انتہا نقصان ہوا۔

اب میں مولانا سے بھی یہی مطالبہ کرتا ہوں کہ اگر وہ دعوی کرتے ہیں کہ موجودہ اسمبلیاں ناجائز ہیں تو وہ قومی، صوبائی اور سینٹ کی نشستوں سے استعفے 27 اکتوبر سے پہلے دیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو یہ بات یقینی ہے کہ وہ دوغلے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور صرف اپنے ذاتی مفاد میں سوچ رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں کوئی دھرنہ سیاسی انجینرز کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ طاہرالقادری، عمران خان اور ٹی ایل پی ان تمام دھرنوں میں کسی نہ کسی طور پر انجینرز شامل تھے۔ میں حزب اختلاف سے یہ درخواست کرتا ہوں کے ان تمام دھرنوں کی تحقیقات کروائی جائیں تاکہ پتہ چلے کہ ان کے پیچھے کون تھا اور ان کے کیا مقاصد تھے۔

ابھی یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا مگر کچھ اشارے اس بات کے مل رہے ہیں کہ مولانا جن کے انجینرز سے پرانے مراسم ہیں شاید وہ ان کے دھرنے کے پیچھے بھی کار فرما ہیں۔ یہ بات پوری طرح واضع ہے کہ مولانا اس بات کی توقع کر رہے ہیں کہ جب ان کا دھرنہ نکلے گا تو 2009 کی طرح کوئی کال آئے گی اور ان کے مطالبات مان لیے جائیں گے۔ مولانا کے ظاہری اور باطنی مطالبات الگ الگ ہوں گے۔ قوم کو دکھایا کچھ جائے گا اور اندر خانے کام کچھ اور ہوگا۔ پچھلے 72 سالوں سے اس قوم کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے۔ 

میں ایک سیاستدان کے طور پر حزب اختلاف کا حصہ ہوں۔ مگر اس بات کا قائل ہوں کہ حزب اختلاف کا کام پالیسی سازی کی بحث میں مکمل حصہ لینا ہے تاکہ قوم کے مفاد میں بہتر فیصلے کیے جائیں۔ میں پچھلے الیکشن کو انجینرڈ سمجھتا ہوں اور اس بات پر قائل ہوں کے اس میں نے انتہا دھاندلی ہوئی جس کی ذمہ دار ہماری عدلیہ ہے جس کے ذمہ اس کی شفافیت کو یقینی بنانا تھا۔ عدلیہ نہ صرف انصاف دینے میں ناکام رہی ہے بلکہ ان کے زیرنگرانی الیکشن بھی کبھی شفاف نہیں ہوئے۔

چیف جسٹس کو یا تو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ الیکشن نہیں کرائیں گے یا پھر اس بات کی مکمل تحقیق کرائیں کے دھاندلی کس نے کی اور انہیں سزا دیں۔ پارلیمان کی کمیٹی اس کی تحقیق کرے جس کی روشنی میں عدلیہ اپنے ان لوگوں کو سزا دے جو شفاف الیکشن نہ کروا سکے۔ پارلیمان الیکشن قوانین کو نئے سرے سے مرتب کرے تاکہ آئندہ الیکشن شفاف ہوں۔

جہاں تک مولانا کی احتجاجی تحریک کا تعلق ہے تو میں اس وقت ان کی حمایت پر سنجیدگی سے غور کروں گا جب وہ اسمبلیوں سے استعفے دے دیں گے۔ مگر ہمارے مسائل کا حل نئے الیکشن میں نہیں ہے۔ ہمیں ایک نئی جمہور کی ضرورت ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ