اگوسٹا آبدوز سکینڈل دوبارہ کھل گیا: سابق فرانسیسی وزیر اعظم لپیٹ میں

اس کیس میں پاکستان کے سابق وزیراعظم اور سابق صدر پر کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں جب کہ ایک نیول چیف کو اپنی نوکری سے ہاتھ بھی دھونا پڑا تھا۔

’کراچی افیئر‘ کے نام سے فرانس میں چھ افراد کے خلاف مقدمے کا آغاز آج ہوا جس میں سابق فرانسیسی وزیراعظم ایدوار بالادور پر پاکستان کے ساتھ اگوسٹا آبدوزوں کے سودے میں کمیشن لینے کا الزام ہے۔

جہاں فرانسیسی وزیراعظم کو الزامات کا سامنا ہے وہیں اس کیس میں پاکستان کے سابق وزیراعظم اور سابق صدر پر کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں جب کہ پاکستان بحریہ کے ایک نیول چیف کو اپنی نوکری سے ہاتھ بھی دھونا پڑا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

90 سالہ سابق فرانسیسی وزیراعظم بالادور 1993 سے 1995 کے درمیان وزیراعظم رہے اور انہوں نے 1995 میں صدارتی انتخابات لڑنے کی بھی کوشش کی تھی۔ ان پر الزام ہے کہ اگوسٹا ڈیل سے کک بیکس سے انہوں نے اپنی صدارتی مہم کی فنڈنگ کی تھی۔

ایدوار بالادو اور سابق وزیر دفاع فانسوا لیوتار دونوں پر 2017 میں فرد جرم عائد کی گئی تھی مگر دونوں افراد نے الزامات کی تردید کی ہے۔

اگوسٹا آبدوز ڈیل جسے فرانس میں ’کراچی افیئر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، پچھلی دو دہائیوں میں متعدد بار بین الاقوامی خبروں کا حصہ رہی ہے۔ فرانس کے سابق صدر نکولا سارکوزی کو بھی اسی کیس میں تحقیقات کا سامنا رہا ہے۔

کراچی افیئر کیا ہے؟

1992 میں نواز شریف کے دور حکومت میں پاکستان بحریہ کو اربوں روپے مالیت کی تین نئی آبدوزیں خریدنے کی اجازت ملی تھی۔ مگرفرانس سے اگوسٹا آبدوزوں کی خریداری کا معاہدہ 1994 میں بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں طے پایا۔

فرانس میں اس معاملے پر عدالتی تحقیقات 1997 سے جاری ہیں جب کہ پاکستان میں بھی اس کیس کی وجہ سے کئی شخصیات کو تحقیقات اور نوکری سے برطرفی کا سامنا کرنا پڑا جن میں سرفہرست اس وقت کے نیول چیف ایڈمرل منصور الحق تھے۔

پاکستان میں کیسز

سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری کو اگوسٹاآبدوزوں کی ڈیل میں بارہا کرپشن الزامات کا سامنا رہا۔ ان پر الزام لگایا جاتا رہا کہ انہوں نے فرانس کے ساتھ ڈیل کے ذریعے کک بیکس سے پیسے کمائے۔ جب یہ مبینہ ڈیل ہوئی تو اس وقت آصف علی زرداری وفاقی وزیر برائے سرمایہ کاری تھے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے پیپلز پارٹی حکومت کے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر سے پوچھا کہ آیا صدر زرداری پر اس حوالے سے کبھی کیس بنے تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق صدر زرداری پر اس حوالے سے کوئی کرپشن ریفرنس نہیں تھا۔

ماضی میں سابق ڈائریکٹر جنرل نیول انٹیلی جنس کموڈور (ریٹائرڈ) شاہد اشرف نے ایکسپریس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ فرانس کے ساتھ اگوسٹا ڈیل میں سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری کا کوئی کردار نہیں تھا اور انہیں اس کیس میں شامل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا مگر انہوں نے دباؤ کو قبول نہیں کیا۔

اپریل 2001 میں امریکی حکام نے پاکستان نیوی کے سابق ایڈمرل منصور الحق کو گرفتار کیا تھا جنہیں اسی ڈیل کے حوالے سے الزامات کا سامنا تھا۔ منصور الحق ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ میں قیام پذیر تھے مگر گرفتاری کے بعد انہیں پاکستان بھیج دیا گیا تھا۔ 2002 میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں منصور الحق سے ان کا سابق عہدہ اور پینشن وغیرہ واپس لے لیے گئے تھے۔ بعد ازاں ایڈمرل منصور الحق نے نیب کے ساتھ پلی بارگین کر لی تھی۔

فرنچ انجینیئرز پر کراچی بم حملہ

آٹھ مئی 2002 کو کراچی میں چینی انجینیئروں کی بس پر بم حملہ ہوا جس میں 15 افراد بشمول 11 فرنچ انجینیئر، مارے گئے۔ شیرٹن ہوٹل کے سامنے ہوئے اس حملے میں مارے جانے والے فرنچ انجینیئر انہیں سب میرینز کے حوالے سے کام کر رہے تھے۔

جس وقت یہ حملہ ہوا اس وقت نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر کراچی میں موجود تھی اور نیوزی لینڈ کی ٹیم کے کھلاڑی قریب ہی پی سی ہوٹل میں ہی موجود تھے۔ حملے کے بعد نیوزی لینڈ ٹیم تمام میچ کھیلے بغیر ہی ملک چھوڑ کر واپس چلی گئی تھی۔

پاکستانی اور فرانسیسی حکومتوں کی جانب سے حملوں کا الزام القاعدہ پرعائد کیا گیا مگر بعد میں مختلف رپورٹوں کے مطابق یہ انکشاف ہوا کہ اس حملے کا مبینہ طور پر تعلق اگوسٹا ڈیل سے ہے اور حملہ اس لیے کیا گیا کیوں کہ فرانس نے کمیشن کی پوری طے شدہ رقم پاکستانی عہدیداروں کو ادا نہیں کی تھی اور اسی کا بدلہ لینے کے لیے یہ حملہ کیا گیا۔

جب سابق فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی سے اس حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا یہ تاثر کہ 2002 کا حملہ کک بیکس کی ادائیگی نہ کرنے کا انتقام تھا محض ایک مضحکہ خیز کہانی ہے اور اس کہانی پر کوئی بھی یقین نہیں کرے گا۔ جبکہ فرانس میں چینی انجینیئروں کے لواحقین کے ایک وکیل کے مطابق کراچی حملے کا تعلق کمیشن کی ادائیگیوں سے ہے۔

2003 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے حرکت المجاہدین العالمی سے مبینہ تعلق رکھنے والے محمد رضوان اور آصف ظہیر کو خود کش حملے میں معاونت پر سزا سنائی تھی مگر 2009 میں مقامی عدالت نے سزا کو کالعدم قرار دے کر محمد رضوان اور آصف ظہیر کو بری کر دیا تھا۔
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان