بچوں کو ویڈیو گیمز کی لَت لگانے کے لیے ماہرینِ نفسیات کی خدمات

کینیڈا میں آن لائن ویڈیو گیم ’فورٹ نائٹ‘ بنانے والی کمپنی ’ایپک گیمز‘ کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا ہے جس میں والدین نے اس گیم کو کوکین سے مشابہت دیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ گیم کھیلنے والوں کو منشیات کی طرح اس کی لت لگ جاتی ہے۔ 

فورٹ نائٹ کے خلاف مقدمے میں عالمی ادارہ صحت کی اُس رپورٹ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس میں ڈبلیو ایچ او نے گذشتہ برس ویڈیو گیمز کی لت کو دماغی بیماری کے طور پر درجہ بندی کرنے کی سفارش کی تھی۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

دنیا کی سب سے معروف آن لائن ویڈیو گیم ’فورٹ نائٹ‘ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی ہے جس میں گیم ڈیویلپرز پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے صارفین کو اس کی لت لگانے کے لیے ماہرینِ نفسیات کی خدمات حاصل کی تھیں۔

کینیڈا میں دو بچوں کے والدین نے فورٹ نائٹ بنانے والی کمپنی ’ایپک گیمز‘ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے جس میں انہوں نے اس گیم کو کوکین سے مشابہت دیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ گیم کھیلنے والوں کو منشیات کی طرح اس کی لت لگ جاتی ہے۔ 

قانونی فرم کیلیکس لیگل سے وابستہ وکیل الیگزینڈرا شارٹرینڈ نے کینیڈین نشریاتی ادارے سی بی سی کو بتایا: ’ایپک گیمز سالوں سے فورٹ نائٹ کے لیے ماہرینِ نفسیات کی خدمات حاصل کر رہے ہیں تاکہ انسانی ذہن سے کھیلتے ہوئے صارفین کو زیادہ سے زیادہ اس کا عادی بنایا جا سکے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ جانتے بوجھتے مارکیٹ میں ایسی گیمز متعارف کراتے ہیں جن کے لوگ بہت زیادہ عادی ہو جاتے ہیں، خاص طور پر نوجوان۔ ہمارے کیس میں دو والدین سامنے آئے ہیں جن کا کہنا ہے کہ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ ان کے بچے فورٹ نائٹ کے اتنے عادی ہو جائیں گے تو وہ کبھی ان کو یہ گیم کھیلنے کی اجازت نہ دیتے یا کم از کم ان پر گہری نظر رکھتے۔‘

شارٹرینڈ چاہتی ہیں کہ اس مقدمے کو بھی تمباکو کی بڑی کمپنیوں کے خلاف 2015 کے کلاس ایکشن مقدمے کی طرح ڈیل کیا جائے جن میں ان کمپنیوں پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ اپنے صارفین کو تمباکو کے نشہ آور اثرات سے متعلق صحیح طور پر خبردار نہیں کر رہے ہیں۔

فورٹ نائٹ کے خلاف مقدمے میں عالمی ادارہ صحت کی اُس رپورٹ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس میں ڈبلیو ایچ او نے گذشتہ برس ویڈیو گیمز کی لت کو دماغی بیماری کے طور پر درجہ بندی کرنے کی سفارش کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عالمی ادارہ صحت کی ویب سائٹ پر ویڈیو گیمز کی لت کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے: ’نقصان دہ حد تک گیمنگ کا کنڑول۔۔۔ منفی نتائج کے باوجود گمینگ کا تسلسل یا اس میں اضافہ۔‘

ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس بیماری کی تشخیص کے لیے کسی فرد میں کم سے کم 12 مہینوں تک اس کے برتاؤ کا واضح ہونا ضروری ہے۔

یہ فیصلہ گیمنگ کمیونٹی کے کچھ افراد میں متنازع ثابت ہوا اور کچھ لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا اس کی سنگین بیماری کے طور پر درجہ بندی کرنی چاہیے؟

پٹھوں کی ایک بیماری میں مبتلا 21 سالہ ونسینٹ ایلن  نے ایک بار کہا تھا: ’بہت اچھا، آئیے ان لوگوں کے لیے اس کو مزید مشکل بنا دیں جو واقعی ایک حقیقی بیماری یا معذوری میں مبتلا ہیں اور ان کو مدد کی ضرورت ہے۔‘

2017 میں لانچ ہونے والی فورٹ نائٹ کے دنیا بھر میں 25 کروڑ سے زیادہ صارفین ہیں جو اسے دنیا کی سب سے مشہور ویڈیو گیم بناتے ہیں۔

اس سے پہلے ایپک گیمز پر بچوں کو جوئے کی لت لگانے  کا الزام لگایا گیا تھا کیوں کہ ان گیمز میں ایسی تکنیک شامل کی گئی تھیں جس سے بچوں کو کھیل میں بنائے گئے ٹولز حاصل کرنے کے لیے رقم خرچ کرنا پڑتی تھی جبکہ مبینہ طور پر نو سال کی عمر تک کے بچوں کو ان گیمز کی لت سے چھٹکارے اور علاج کے لیے تھراپی کی ضرورت پیش آئی تھی۔

یہاں تک کہ گذشتہ برس ایک والد نے اپنے بچوں کو گیم کھیلنے سے روکنے کے لیے سخت قدم اٹھاتے ہوئے ان کا آئی پیڈ توڑ ڈالا تھا۔

ایپک گیمز نے فوری طور پراس پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل