جنوبی پنجاب کی لڑکیاں پڑھ کیوں نہیں پاتیں؟

ڈراپ آؤٹ کا شکار ہونے والی بچی اقرا بی بی نے بتایا کہ اسے تعلیم حاصل کرنے کا آج بھی بہت شوق ہے وہ اب بھی پڑھنا چاہتی تھی مگر اس کے والد نے پانچویں کلاس میں اسے گھر سے باہر نکلنے سے منع کر دیا کہ بڑی ہو گئی ہو۔

حکومت پنجاب میں تعلیم تقریباً مفت فراہم کر رہی ہے، لیکن لڑکیوں کی بڑی تعداد اس سے استفادہ کرنے سے قاصر ہے۔(اے ایف پی)

تمام تر حکومتی دعووں کے باوجود ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں طالبات کا سکولوں سے ڈراپ آؤٹ (خارج ہونا) اوراس کا سبب بننے والے عوامل کی روک تھام یقینی نہیں بنائی جا سکی۔

آج بھی سینکڑوں بچیاں سکولوں میں ناپید بنیادی سہولیات، ماہواری، شادی اور بہن بھائی پالنے کے چکر میں والدین کے دباؤ کی بنا پر یا تو سکولوں سے خارج کر دی جا تی ہیں یا ان کے گھر والے انہیں سکولوں سے اٹھا دیتے ہیں۔

اس سلسلے میں محکمہ تعلیم  کی صوبہ پنجاب کے 36 اضلاع کی درجہ بندی رپورٹ میں جنوبی پنجاب کے اضلاع سب سے پیچھے ہیں۔ جن میں بہاول نگر 35 ویں، مظفر گڑھ 34 ویں، رحیم یار خان 33 ویں، راجن پور 28 ویں، خانیوال 26 ویں اور لیہ 23 ویں جبکہ ڈی جی خاں سب سے آخری نمبر پر ہے۔

یہ اعداد وشمار جنوبی پنجاب کے بچوں کو معیار تعلیم کی فراہمی کی ترجیحات کا بھانڈا بھی پھوڑ رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سماجی تنظیم اثر کی رپورٹ کے مطابق صوبہ میں 68 فیصد 13 سے 23 سال کی بچیاں پڑھ اور لکھ سکتی ہیں جبکہ 48 فیصد غریب بچیاں جن کی عمریں 5 سے 16 سال تک کی ہیں سکولوں میں رجسٹرد ہیں جن میں سے 42 فیصد سکینڈری سکول  تک پہنچ پاتی ہیں، ان میں سے بھی صرف دس فیصد سکینڈری تعلیم مکمل کرتی ہیں۔

اس صورت حال کی بنیادی وجوہات میں سب سے اہم ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے پسماندہ مضافاتی علاقوں میں ماہواری کا آغاز، کم عمر بچیوں کی شادیاں، زیادہ بہن بھائی ہونے کے باعث ان بچیوں پر انہیں بھی پالنے کی ذمہ داری نیز غربت، بیروزگاری اور بچیوں کے لیے تعلیمی ترجیحات کا نہ ہونا شامل ہیں۔ بچیاں اس طرح تعلیم پر توجہ برقرار نہیں رکھ سکتیں اور کم حاضری یا فیل ہونے پر نکال دی جاتی ہیں یا انہیں والدین گھر بیٹھا دیتے ہیں۔

ضلع ملتان کی کل آبادی میں سے صرف 22 فیصد پرائمری سطح اور دس فیصد سکینڈری سطح تعلیم عبور کر پاتی ہیں۔

سکول سے ڈراپ آؤٹ ہونے والی طالبہ کی والدہ صغریٰ بی بی کے مطابق بچیوں سے ملازمت نہ کرانے کی وجہ سے ان کو زیادہ پڑھانے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی اور بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر ان کی شادی کی فکر شروع ہو گئی جس کی وجہ سے بیٹی کو اس عمر میں رخصت کر دیا کیونکہ عمر بڑی ہونے پر رشتے بھی نہیں آتے اور اس کے جاننے والوں میں کئی پڑھی لکھی اور ملازمت پیشہ بچیاں 35 سال اور اس سے زیادہ عمر ہونے کے باوجود رشتہ نہیں ملنے کے باعث گھروں میں بیٹھی ہیں اور والدین کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ 

ڈراپ آؤٹ کا شکار ہونے والی بچی اقرا بی بی نے بتایا کہ اسے تعلیم حاصل کرنے کا آج بھی بہت شوق ہے وہ اب بھی پڑھنا چاہتی تھی مگر اس کے والد نے پانچویں کلاس میں اسے گھر سے باہر نکلنے سے منع کر دیا کہ بڑی ہو گئی ہو۔ پھر کچھ عرصہ بعد اس کی شادی کر دی گئی ایک سال بعد بیٹا پیدا ہو گیا۔ اب بھی اسے سکول اور سہلیاں یاد آتی ہیں۔

گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول رحیم آباد کی ہیڈ مسٹریس عائشہ غازی نے کہا کہ ’اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ بچیوں کی تعلیم بھی بچوں کے ساتھ لازم و ملزوم ہے، تاہم والدین کو اس حوالے سے آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ بچیوں کا پڑھنا بھی اہم ہے۔ جب بھی کوئی بچی سکول سے جاتی ہے تو دکھ ہوتا ہے کیونکہ  تعلیم سے دوری بچیوں کا قصور نہیں ہے۔‘

حکومت پنجاب میں تعلیم تقریباً مفت فراہم کر رہی ہے، لیکن لڑکیوں کی بڑی تعداد اس سے استفادہ کرنے سے قاصر ہے۔

سینیئر استاد الماس منیر کے مطابق ماہواری کی دشواریاں بھی بڑی وجہ ہیں کیوں کہ ابتدائی ایام میں بچیاں کم عمری کے باعث جھجھک محسوس کرتی ہیں ہمارے یہاں تاحال سکول اس حوالے سے گرلز فرینڈلی بھی نہیں بنائے جا سکے کیوں کہ تعلیمی سہولیات ہی سب کچھ نہیں ہوتیں۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی سہولیات کی فراہمی بچیوں میں وقت کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یقینی بنانا پڑیں گی تاکہ وہ اعتماد کے ساتھ سکول جا سکیں۔   

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ