خواجہ سرا اپنوں میں بھی بیگانے

خواجہ سراؤں سے معاشرہ تو برا سلوک کرتا ہی ہے، ان کے ماں باپ اوربہن بھائی بھی ان کا ساتھ نہیں دینا چاہتے

کوہاٹ پولیس کے مطابق خواجہ سرا جہانگیر 31 جنوری کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ انڈس ہائی وے پر بانڈہ داؤد شاہ سے واپس آتے ہوئے نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے تھے۔

اطلاعات کے مطابق جہانگیر، مشتاق اور ارشد ایک نجی محفل موسیقی میں شرکت کے بعد واپس لوٹ رہے تھے جب نامعلوم ملزمان نے انہیں فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔

فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہونے والے خواجہ سرا ارشد کے مطابق اس واقعہ کا ذمہ دار محفل موسیقی منعقد کرنے والا شخص ہے۔ ارشد نے دو مزید ملزمان کو بھی نامزد کیا ہے۔ 

گزشتہ روز اسلام آباد میں خواجہ سراؤں کی جانب سے قتل کی اس واردات پر احتجاج کیا گیا۔ 

اس احتجاجی مظاہرے میں سول سوسائٹی کی طرف سے فرزانہ باری اور نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس پاکستان کی جانب سے سابق جسٹس علی نواز چوہان نے بھی شرکت کی۔

وجود سوسائٹی کی طرف سے منعقد احتجاج میں اس تنظیم کی چیئرپرسن ببلی ملک کا یہ کہنا تھا کہ خواجہ سرا ولدیت کے خانے میں اپنے گرو کا نام لکھ سکتے ہیں اور انہیں اسی شرط پہ شناختی کارڈ بھی مہیا کردیا جاتا ہے۔ 

گرو ہی پوری کمیونٹی کا نگران یا گارڈین بھی ہوتا ہے۔ خواجہ سراؤں میں آپس کے تمام معاملات، مالی مسائل، دکھ سکھ، خوشیاں، غم سب کچھ اسی گرو کی نگرانی میں ہوتا ہے، لیکن وہی گرو اپنے گھرانے کے کسی خواجہ سرا کے قتل ہونے کی صورت میں مقدمے کی پیروی نہیں کرسکتا۔

جب قتل کے ایسے کسی مقدمے کی پیروی کے لیے خواجہ سرا یا ان کے گرو تھانے جاتے ہیں تو ان سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ مرنے والے کے قانونی وارث کو سامنے لایا جائے کیونکہ وہی اس مقدمہ کو لڑنے کے یا اس کی پیروی کرنے کے اہل ہیں۔

اس صورتحال میں خواجہ سرا ببلی ملک کا مزید یہ کہنا تھا کہ ماں باپ یا بہن بھائی یہ تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو خواجہ سرا کو جیتے جی مار چکے ہوتے ہیں۔ وہ مرنے کے بعد انہیں کیوں اپنی اولاد مانیں گے؟ وہ تو شکر کریں گے کہ جان چھوٹ گئی۔ ان کے مطابق خواجہ سراؤں کی لاش پر اپنا نام لکھوانا کوئی پسند نہیں کرتا۔

ایک سوال پر ببلی ملک نے بتایا کہ معاملہ اگر قصاص کا ہو تو فریق تھانے سے باہر ہی آپس کے معاملات طے کر لیتے ہیں اور مرنے والے خواجہ سرا کے والدین پیسے لے کر معاملہ رفع دفع کر دیتے ہیں۔

اس مظاہرے میں شریک ہونے والے خواجہ سراؤں کی جانب سے ایک سوال یہ بھی اٹھایا گیا کہ ایسے تمام واقعات صرف خیبرپختونخوا ہی میں کیوں اتنا زیادہ سامنے آ رہے ہیں۔ کیا وہاں خواجہ سرا انسان نہیں سمجھے جاتے یا ان کے حقوق انسانی حقوق کے برابر نہیں جانے جاتے ۔ خواجہ سراؤں کا سوال یہ بھی تھا کہ خیبرپختونخوا حکومت ان معاملات پر خاموش کیوں ہے، انہوں نے حکومت کے سو جانے کا شکوہ بھی کیا۔ 

ایک اور خواجہ سرا شہزاد نسیم کا یہ کہنا تھا کہ خواجہ سراؤں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شناختی کارڈ جاری ہونے کے بعد بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عام شہریوں والے حقوق اب تک نہیں مل سکے۔

مظاہرے میں شریک نیشنل کمشن فار ہیومن رائٹس کے چئیر پرسن جسٹس علی نواز چوہان کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے خود خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کے حالات کا جائزہ لیا ہے۔ وہاں خواجہ سراؤں کو رہنے کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔ صفائی کے معاملات بہت زیادہ خراب ہیں اور وہ غیر انسانی طریقہ سے رہنے پر مجبور ہیں۔ انہیں اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے بعض اوقات جسم فروشی بھی کرنی پڑتی ہے۔ 

جسٹس علی نواز چوہان کے مطابق حال ہی میں خیبر پختونخوا حکومت نے خواجہ سراؤں کے لئے کچھ پیسے بجٹ میں مختص کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے لئے پہلی فرصت میں شیلٹر ہومز بنائے جانا بہت ضروری ہے۔ 

جسٹس علی نواز کے مطابق خواجہ سراؤں کے خلاف پھیلی اس نفرت میں ملائیت کا بھی نہایت اہم کردار ہے اور خواجہ سراؤں کے مقدمے نظر انداز ہونے کی اہم وجہ یہ بھی ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل