’آزادی مارچ قریب آنے سے حکومت کی گھبراہٹ بڑھ رہی ہے‘

پارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل اسلم غوری کے مطابق 2018کے انتخابات میں ان کا ووٹ چوری کیا گیا اور آزادی مارچ میں ووٹر اس چوری کے خلاف احتجاج کرنے آ رہا ہے۔

جمیعت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف کی حکومت گرانے کے لیے ملک گیر احتجاج کی کال دی ہے جسے انہوں نے ’آزادی مارچ ‘کا نام دیا، یعنی، بقول جمیعت علما اسلام ف کے، وزیر اعظم عمران خان کی حکومت سے ’آزادی حاصل کرنے کے لیے‘ پاکستان کی عوام مارچ کرے گی۔

اس مارچ کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں جے یو آئی ایف کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل اسلم غوری نے بتایا کہ 27 اکتوبرکو مارچ کا آغاز ہو گا جب ملک کے مختلف حصوں سے قافلے روانہ ہوں گے اور ان کا رخ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جانب ہو گا۔

قریبی علاقوں سے قافلے یقیناً اسی دن یا ایک آدھ دن میں اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔ جبکہ دور دراز کے شہروں، قصبوں اور دیہات سے آنے والے قافلے27 کے بعد پہنچے گے اور یہ سلسلہ تین چار روز تک جاری رہے گا۔

منگل کومولانا فضل الرحمان نے اعلان کیا کہ قافلے اسلام آباد کی طرف روانہ تو 27 اکتوبر کو ہی ہوں گےمگر وفاقی دارالحکومت میں31 اکتوبر کو داخل ہوں گے۔

یاد رہے کہ 27 اکتوبر وہ تاریخ ہے جب بھارتی حکومت نے 1947میں جموں و کشمیر کی ریاست میں اپنی فوج بھیج کر اس علاقے کو اپنے ملک کا حصہ بنا لیا تھا۔

آزادی مارچ کے لیے 27 اکتوبر کے دن کے انتخاب کے باعث مولانا فضل الرحمان اور ان کی پارٹی شروع سے ہی اعتراضات کا نشانہ بن رہی ہے۔تاہم اسلم غوری نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آزادی مارچ کا مقصد مظلوم کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار ہے۔

جمیعت علما اسلام (ف) کے مطابق آزادی مارچ میں حصہ لیتے ہوئے لاکھوں لوگ اسلام آباد پہنچیں گےاور ’یہ جم غفیر اسلام آباد میں کاروبار اور  زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دے گا جس سے حکومت پر ایک دباو آئے گا اور حکمرانوں کے پاس بھاگنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہ جائے گا۔‘

اب سوال یہ ہے کہ کیا ملک کے طول و عرض سے آنے والے مظاہرین کو اسلام آباد آنے دیا جائے گا؟

سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اوروزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی حکومت نے جے یو آئی ایف کے مظاہرین کو نہ روکنے کا عندیہ دے رکھا ہے۔ شاید اسی لیے جمیعت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی سکھر سے مظاہرین کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد آنے کا پروگرام بنایا ہے۔

تاہم سندھ سے آنے والے آزادی مارچ کے شرکا صادق آباد کے مقام پر پنجاب میں داخل ہوتے ہیں تو کیا صورت حال ہو گی اس کا اندازہ کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔

اسی طرح خیبر پختونخوا میں آزادی مارچ میں حصہ لینے والے صوبائی حکومت کی طرف سے کس قسم کے رد عمل کا سامنا کر سکتے ہیں اس کی وضاحت وزیر اعلیٰ محمود خان نے پہلے ہی کر دی ہے۔ چند روز قبل ایک جلسے سے خطاب میں انہوں نے مظاہرین سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا عندیہ دیا تھا۔

پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باعث اصل رن پنجاب میں پڑ سکتا ہے  کیونکہ یہاں سے نہ صرف پنجاب کے مختلف حصوں سے آنے والے قافلے ہوں گے بلکہ خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان سے قافلے بھی یہیں سے گزر کر وفاقی دارالحکومت پہنچ پائیں گے۔

مولانا فضل الرحمان پہلے ہی ایک پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں کہ 27 اکتوبر کوسارا ملک میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا ہو گا۔یعنی ملک طول و عرض میں جمیعت علماسلام ف سے تعلق رکھنے والے مظاہرین اور حکومتی قانون نافذکرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے درمیان آنکھ مچولی اور شاید اس سے بھی زیادہ سنجیدہ اور خطرناک کھیل دیکھنے کی امید کی جا سکتی ہے۔

پارٹی کےمرکزی ڈپٹی سیکرٹری اسلم غوری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ آزادی مارچ میں حصہ لینے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوگی اور یہ لوگ اسلام آباد کی ہر سڑک اور گلی میں موجود ہوں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا:’یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آزادی مارچ کے بعد کا دھرنا کتنے روز جاری رہے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا خیال تھا کہ ’آزادی مارچ کا دن قریب آنے کے ساتھ وفاقی حکومت کی گھبراہٹ میں اضافہ ہو رہا ہے جس کا ثبوت روزانہ کی بنیاد پر وزیروں اور مشیروں کی پریس کانفرنسیں ہیں جن میں وہ ایک دوسرے سے متضاد بیانات دے رہے ہیں۔‘

جمیعت علما اسلام ف نے اسلام آباد شہر کی انتظامیہ کو دھرنا دینے کی اجازت کی غرض سے ایک درخواست دے دی ہےتاہم اس درخواست پر ابھی کوئی فیصلہ ہونا باقی ہے۔

اسلم غوری کا کہنا تھا:’ اتنی بڑی تعداد میں آنے والے مظاہرین کو کسی مخصوص مقام تک محدود رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔‘

دوسری طرف اسلام آباد کے ایک شہری نے دھرنا رکوانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن کی دائر کی ہوئی ہے، جس کی منگل کو پہلی پیشی کے دوران چیف جسٹس اطہر مان اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ دھرنا صرف انتظامیہ کی اجازت سے ہی ہو سکتا ہے۔

اسلم غوری نے بتایا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمیعت علما اسلام اپنا ایک جمہوری اور آئینی حق ادا کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2018کے انتخابات میں ان کا ووٹ چوری کیا گیا اور آزادی مارچ میں ان کا ووٹر ووٹ کی اس چوری کے خلاف احتجاج کرنے آرہا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ووٹ کی اس مبینہ چوری کے خلاف احتجاج کیا رخ اختیار کرتا ہے اور حکومت اس کے ردعمل میں کیا رویہ اپناتی ہے؟

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست