ایرانی خواتین آج 40 سال بعد سٹیڈیم میں میچ دیکھیں گی

گذشتہ 40 سال سے خواتین کے فٹ بال سمیت باقی سٹیڈیمز میں داخلے پر پابندی عائد تھی جو مذہبی رہنماؤں کے مطابق خواتین کو مردانہ ماحول اور نیم برہنہ کھلاڑیوں کی موجودگی سے دور رکھنے کے لیے ضروری تھا۔

اکتوبر 2018 میں 100 ایرانی خواتین کو بولیویا کے خلاف میچ  دیکھنے کی اجازت ملی (اے ایف پی)

کئی دہائیوں بعد ایران میں ہزاروں خواتین آج کھیلے جانے والے فٹ بال میچ سے سٹیڈیم میں لطف اندوز ہو سکیں گی۔ ایسا فیفا کی جانب سے دباؤ کے بعد ممکن ہوا ہے جس میں اس نے ایران کی صرف مردوں کو سٹیڈیم میں داخلے کی پالیسی پر ملک کی فیفا رکنیت معطل کرنے کی دھمکی دی تھی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران میں گذشتہ 40 سال سے خواتین کے فٹ بال سمیت باقی سٹیڈیمز میں داخلے پر پابندی عائد تھی۔ مذہبی رہنماؤں کے مطابق ایسا خواتین کو مردانہ ماحول اور نیم برہنہ کھلاڑیوں کی موجودگی سے دور رکھنے کے لیے ضروری تھا۔

فٹ بال کی عالمی گورننگ باڈی فیفا نے گذشتہ ماہ ایران پر خواتین کو سٹیڈیم میں داخلے اور ٹکٹوں کی طلب کے حساب سے انہیں ٹکٹ فراہم کرنے پر زور دیا تھا۔ یہ ہدایت ایک ایسے واقعے کے بعد جاری کی گئیں جس میں لڑکوں کا لباس پہن پر فٹ بال میچ دیکھنے جانے والی ایرانی لڑکی، جسے ’بلو گرل‘ کا نام دیا گیا، نے گرفتاری کے ڈر سے خود کو آگ لگا کر خودکشی کر لی تھی۔  

خواتین نے تہران کے ایک لاکھ شائقین کی گنجائش والے آزادی سٹیڈیم میں جمعرات کو ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ 2022 کے کوائلیفائر میچ کی ٹکٹیں ہاتھوں ہاتھ خرید لیں۔ یہ میچ ایران اور کمبوڈیا کی ٹیموں کے درمیان کھیلا جائے گا۔

ٹکٹوں کی فروخت کا پہلا مرحلہ ایک گھنٹے سے بھی کم میں مکمل ہو گیا۔ سرکاری میڈیا کے مطابق اضافی سیٹس بھی جلد ہی ختم ہو گئیں۔

ٹکٹ حاصل کرنے والی 35 سو خواتین میں سے ایک روہا پوربخش فٹ بال پر نظر رکھنے والی صحافی ہیں۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’مجھے ابھی تک یقین نہیں آیا کہ اتنے سال اس میدان میں کام کرنے کے بعد ایسا ہونے جا رہا ہے۔ سب کچھ ٹیلی ویژن پر دیکھنے کے بعد اب میں سب کچھ اپنے سامنے دیکھ سکوں گی۔‘

لیکن روہا کے مطابق بہت سی خواتین مداح ٹکٹ حاصل نہیں کر پائیں۔

متعدد مواقع پر ایرانی خواتین کو میچ دیکھنے کی اجازت دی جا چکی ہے لیکن اس بار وہ ٹکٹ خریدنے میں بھی آزاد تھیں گو کہ ٹکٹین ایک مختص تعداد میں دستیاب تھیں۔

خواتین نے سوشل میڈیا پر مزید ٹکٹوں کے لیے ’ویک اپ فیفا‘ کا ٹرینڈ بھی چلایا۔ اسنا نیوز ایجنس کے مطابق خواتین اپنے لیے دستیاب تمام ٹکٹس خرید چکی ہیں جبکہ مردوں کے لیے مختص 70 ہزار الیکٹرونک ٹکٹوں میں سے صرف 25 سو فروخت ہو سکے ہیں۔

جو خوش قسمت خواتین ٹکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں ہیں انہیں مردوں سے الگ بٹھایا جائے گا جبکہ ان کی نگرانی پر ایک سو پچاس خواتین پولیس اہلکار تعینات ہوں گی۔

تہران کے شہریوں نے خواتین کو میچ دیکھنے کی اجازت دینے کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔

ہستی نامی ایک خاتون کا کہنا تھا: ’میں وہاں خواتین کو آزادی دیکھنا چاہوں گی۔ جیسے مردوں کے لیے ہوتا کہ وہ کہیں بھی جا کے بیٹھ سکتے ہیں کسی پابندی کے بغیر، جیسے باقی ممالک میں ہوتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کاروباری شخصیت نادر فتح کہتے ہیں کہ خواتین کی موجودگی ماحول میں بہتری کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن ان کے مطابق اگر خواتین کو ’برے سلوک اور گالیوں کے لفظ سننے پڑے تو انہیں مایوسی ہوگی۔‘

ایرانی خواتین کو بہت مشکلات کے بعد یہ رسائی ملی ہے۔ گذشتہ ماہ سحر خدایاری نے لڑکے کے روپ میں میچ میں دیکھنے جانے کے مقدمے میں جیل جانے کے خوف سے عدالت کے باہر خود سوزی کرلی تھی۔ انہیں اپنی پسندیدہ ٹیم استقلال ایف سی کے رنگوں کی نسبت سے ’بلیو گرل‘ کہا جا رہا ہے۔

ان کی ہلاکت کے بعد سخت رد عمل دیکھنے میں آیا اور کئی افراد نے ایران پر پابندی اور میچوں کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔

عدلیہ نے ان اطلاعات کو مسترد کر دیا ہے جن کے مطابق سحر خدایاری کو یہ بتایا گیا تھا کہ انہیں قید ہو سکتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خواتین کے لیے ٹکٹوں کی تعداد مختص کرنے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے سحر کی موت کے بعد ایک ’پبلسٹی سٹنٹ‘ قرار دیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے کہا گیا کہ ’ایرانی حکام خواتین کے فٹ بال میچ دیکھنے پر عائد تمام پابندیاں ختم کریں، انہیں ڈومیسٹک میچوں اور پورے ملک میں میچ دیکھنے کی اجازت دی جائے۔‘

تاہم ہیومن رائٹس واچ نے اسے تاریخی قرار دیا ہے۔

ایک ٹویٹ میں ادارے نے کہا: ’10 اکتوبر ایک تاریخی دن ہے جب ایران میں خواتین کو 40 سال بعد فٹ بال میچ دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔‘

قطر میں 2022 کے فٹ بال کے سلسلے میں کھیلے جانے والے کوائلیفائرز میں فیفا نے ایران پر زور دیا ہے کہ خواتین کو یہ میچ دیکھنے کی اجازت دی جائے۔ تاہم ایران نے اس تاثر کی تردید کی ہے کہ خواتین کو جمعرات کو کھیلے جانے والے میچ کو دیکھنے کی اجازت ’بیرونی دباؤ‘ کا نتیجہ ہے۔

حکومتی ترجمان علی رابعی نے ایک ٹویٹ میں لکھا: ’سٹیڈیم میں خواتین کی موجودگی اندرونی سماجی مطالبات اور حکومی کی ان مطالبات کی حمایت کا نتیجہ ہیں۔‘

خواتین کے سٹیڈیم داخلے پر پابندی کا قانون کہیں لکھا ہوا نہیں لیکن اس پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔

1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں خواتین کو سٹیڈیم جانے کی اجازت بہت کم موقعوں پر دی گئی ہے۔

2001 میں کھیلے گئے کوائلیفائرز میں 20 آئرش خواتین نے میچ دیکھا تھا جبکہ 2005 میں بحرین کے خلاف میچ میں چند درجن ایرانی خواتین کو میچ دیکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اکتوبر 2018 میں بولیویا کے خلاف کھیلے جانے والے دوستانہ میچ میں ’چنی گئی‘ 100 خواتین کو میچ دیکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔

اصلاح پسندوں کی جانب سے اس حالیہ حکومتی فیصلے کی حمایت کی گئی ہے جبکہ قدامت پسندوں نے اس کی شدید مخالفت کی ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا