جب پاکستان فوج کے سربراہ نے اچانک استعفیٰ دے دیا

سات اکتوبر، 1998 کو اچانک مستعفی ہونے والے جنرل جہانگیر کرامت کے تاریخی انٹرویو کی آخری بات کل بھی سبق آموز تھی، آج بھی صادق ہے اور شاید کل بھی رہے گی۔

سات اکتوبر 1998 کو مستعفی ہونے والے  جنرل جہانگیر کرامت (اے ایف پی)

’نہیں سر مجھے اس موضوع پر کچھ نہیں کہنا،‘ وہ خاصے اُکھڑے ہوئے تھے۔

’لیکن کیوں سر؟ کوئی تو وجہ ہوگی نا، آپ فوج کے سربراہ ہیں کوئی عام فوجی تو نہیں نا۔ کچھ تو ہوا ہوگا نا جس نے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا؟‘ میں بھی دائرہ ادب میں رہتے ہوئے مصر تھا۔

’میں بیانات اور انٹرویو وغیرہ نہیں دیتا، آپ کو پتا ہے،‘ اب کی بار وہ فوجی لہجے میں بولے۔

’سر میں کب آپ سے بیان یا انٹرویو دینے کے لیے کہہ رہا ہوں، میں تو صرف وجہ جاننا چاہ رہا ہوں۔ اتنے بڑے آدمی کا استعفیٰ ہرگز ایسے نہیں آ سکتا،‘ میری آواز میں التجا بھر آئی تھی۔

’آپ اس قدر بضد کیوں ہیں؟‘ جواباً اس سوال نے میری ہمت بڑھائی، مجھے لگا کہ برف پگھلی ہے، کیونکہ فون انہوں نے پٹخا نہیں تھا۔

اب میرا بھی جوش دلانے والا گیئر لگ چکا تھا۔ میں نے کہا ’سر آپ حوالدار یا صوبیدار میجر تو نہیں نا بلکہ پاکستانی فوج  کے سربراہ ہیں، سربراہ! قوم جاننا چاہے گی کہ ہوا کیا، کیوں ہوا، کیسے ہوا، یہ نوبت کیوں کر آئی؟‘

’لیکن!‘ انہوں نے بس اتنا ہی کہا تھا کہ میں روانی میں جذباتی ہو کر کہہ بیٹھا ’لیکن وغیرہ کچھ نہیں سر، آج آپ خبر ہیں، کل آپ اور آپ کا استعفیٰ بھی خبر نہیں ہو گا!، آج آپ تاریخ ہیں، کل آپ اپنی اس تاریخ کے ساتھ دفن ہو جائیں گے۔‘ میرے اس طرارے کو انہوں نے یہ کہتے ہوئے روکا اچھا ٹھیک ہے پوچھیے کیا پوچھنا ہے۔ یقیناً میں عسکری ہمیت کو للکار چکا تھا۔

اتنا سننا تھا کہ میں نے جنرل صاحب سے یہ کہہ کر کہ سر ’بس ایک منٹ، میں لائن پراپر سٹوڈیو میں ٹرانسفر کر رہا ہوں، پلیز ہولڈ رکھیے گا۔‘

میں نے سیلف اوپ سٹوڈیو سے چھلانگ لگا کر باہر نکلتے عباس ناصر کو تقریباً چلاتے ہوئے پکارا ’جنرل جہانگیر کرامت لائن پر ہیں، بھاگیں!‘ اور پھر فوراً سٹوڈیو میں آ کر جو کچھ عباس ناصر نے پوچھا وہ پاکستان کے تمام قومی اخبارات میں بینر ہیڈ لائن کے ساتھ چھپا۔

انٹرویو کا خلاصہ بتانے سے قبل اتنا بتانا ضروری ہے کہ یہ بات چیت جنرل جہانگیر کرامت سے ہو رہی تھی جو سات اکتوبر 1998 کو رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دے بیٹھے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تفصیل اس کی طویل ہے لیکن مختصراً یہ کہ 15 ویں آئینی ترمیم پاس نہ ہونے، جوہری دھماکے کے حکم اور قومی سلامتی کونسل کی تشکیل اور اس کے اجزائے ترکیبی پر وزیر اعظم نواز شریف سے کھٹ پٹ چل رہی تھی اور کئی فوجی افسران عوامی سطح پر اپنی اکتاہٹ کا اظہار کرتے اور میاں صاحب کی انتظامی پالیسیوں پر اعتراض کرتے نظر آتے تھے اور اس ان بن کے تناظر میں ’جمہوریت نواز اور سول قیادت کے حامی‘ جنرل جہانگیر نے الوداع کہہ دیا تھا۔

گو کہ عباس ناصر (پروگرام ایڈیٹر و انچارج) سے جب میں نے رائے لی کہ کیوں نا جنرل صاحب موصوف کو انٹرویو کے لیے پکڑا جائے تو وہ دل رکھنے کے لیے کہہ چکے تھے ’ہاں کر لیجیے‘ لیکن آنکھیں، لہجہ اور انداز تکلم بتا رہا تھا کہ عباس ناصر کو یقین نہ تھا کہ ایسا ہو پائے گا، لیکن وہ تو پھر ہوا ہی ہوا اور دنیا نے بھی سنا۔

جب جنرل جہانگیر کرامت کو لب کشائی کے لیے میں وعدہ بند کر چکا تو میرے پاس عباس ناصر سے ہی ان کا انٹرویو کرانے کی فوری منطق یہ تھی کہ عباس ناصر کی عسکری امور اور حالات حاضرہ پر مجھ سے کہیں زیادہ گہری نظر اور معلومات تھیں بلکہ خود ان کے خاندانی ڈانڈے بھی فوج سے جا ملتے ہیں تو ’میں میں اور صرف میں ہی میں‘ کا وطیرہ پروگرام کے حق میں نہ تھا۔

دھوم مچانے والے عباس ناصر کے اس انٹرویو کے ابتدائیے میں ایک سوال کا خلاصہ یہ ہے ’سر آپ نکالے گئے یا خود نکل جانا مناسب سمجھا؟‘ اور انٹرویو کا آخری سوال اور اس کا جواب، نصابی کتاب مطالعہ پاکستان میں درج ہونے کے قابل ہے۔

سوال تھا ’نیشنل سکیورٹی کونسل کے بارے میں جو رائے تھی، وہ آپ کی انفرادی تھی یا آپ کے ادارے کی رائے تھی؟‘

جنرل جہانگیر کرامت کا جواب تھا ’آرمی چیف جب بھی بولتا ہے، وہ اس اکیلے کی رائے نہیں ہوتی۔‘

اس انٹرویو کا مکمل احوال تو بعد میں سہی، لیکن جنرل صاحب کے انٹرویو کی آخری بات کل بھی سبق آموز تھی، آج بھی صادق ہے اور شاید کل بھی رہے گی۔


(جنرل جہانگیر کرامت کے اس انٹر ویو کی ریکارڈنگ موجود ہے اور تفصیل میری آنے والی کتاب میں موجود ہے۔)  

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی