لیلی او لیلیٰ: ’میرے والد کے گانے کے ساتھ انصاف نہیں ہوا‘

علی ظفر کے گانے میں ایک بڑی خامی ہے چونکہ جو شاعری یا خیال محبوبہ کی تعریف پر مبنی ہے لہذا اسے اصولاً ایک مرد ہی گا سکتا ہے: تاج محمد تاجل۔

معروف گلوکار علی ظفر کے بلوچی زبان کے گانے’ لیلیٰ او لیلیٰ ‘ کے وائرل ہونے پر معروف بینجو نوازاور موسیقار تاج محمد تاجل  نے کہا ہے یہ گانا ان کے والد نے گایا تھا اور کمپوزیشن بھی انہی کی ہے۔

تاج محمد تاجل نےانڈپینڈنٹ اردوکو بتایا کہ علی ظفر کے گانے میں ایک بڑی تکنیکی خامی ہے چونکہ جو شاعری یا خیال محبوبہ کی تعریف پر مبنی ہے لہذا اسے اصولاً ایک مرد ہی گا سکتا ہے۔

 تاجل کے مطابق اس گانے میں شاعر اپنی محبوبہ کو لیلیٰ لیلیٰ کہہ کر پکارتا ہے اور اسے سیر کی دعوت دیتا ہے۔ ’مجھے بتائیں خود لیلیٰ جو معشوقہ ہے وہ خود کو سیر کی دعوت کیسے  دی سکتی ہے؟‘ 

ان کے بقول ’یہ ہماری زبان سے ناواقفیت اور ہمیں نظر انداز کرنے کی وجہ ہے کہ گانے کے بول بھی  صحیح طریقے سے ادا نہیں کیے گئے اور اس کے معنی بھی کچھ اور ہوگئے ہیں۔‘

’میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی ہماری زبان کے گیت کو نہیں گائے لیکن کم از کم اس کے جاننے والے اور جس کے والد نے یہ گانا گایا اس سے تو رابطہ کرنا چاہیے تھا۔‘

تاجل کے بقول انہوں نے کئی غیر بلوچ گلوکاروں جن میں سندھی، پنجابی، سرائیگی کے گلو کار شامل ہیں، کو بلوچی زبان کے گیت گانے کی تیاری کروائی اور بلوچی الفاظ کو ادا کرنے کی تربیت دی۔

 تاجل اس بات پر رنجیدہ ہیں کہ بلوچی زبان کے بہت سے گیت ری مکس کے نام پر خراب کیے جارہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ان کے اصل حالت اور میوزک آلات کے ساتھ ہی رہنے دیا جائے۔

ان کے مطابق موسیقی کی کوئی زبان نہیں  ہوتی، لیکن ’میں نے غیر بلوچوں کو زِیر زبر کے ذریعے سمجھا کر گانا گانے کی تربیت دی۔‘

واضح رہے تاج محمد تاجل بلوچستان کے سب سے مشہور بینجو نواز اور موسیقارہیں، جنہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے پلیٹ فارم سے کئی گلوکار متعارف کرائے۔ 

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے جب سے ہوش سنبھالا میوزک اور بینجو ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، ان کے والد گلوکاری کرتے تھے، وہ شوقیہ شاعری  کرتے ہیں اور ان کی پہچان بینجو کی وجہ سے زیادہ ہے۔

تاجل بلوچستان کے مشہور گلوکار فیض محمد بلوچ کے بیٹے اور صدارتی ایوارڈ یافتہ ہیں، وہ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی میں بطور میوزیشن کام کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یاد رہے علی ظفر کےساتھ بلوچستان کی ابھرتی ہوئی  گلوکارہ عروج فاطمہ نے اس گانے کو گایا ہے۔ انہوں نے بھی تاج محمد تاجل سے گانے کی تربیت حاصل کی ۔

ان کے مطابق ،اسی طرح میرے والد نے گیت ’بابل ء سیر‘ کو بھی گایا ہے لیکن کسی اور گلوکار نے اسے ’بابل ء شیرئے‘ کہا ہے۔ ’سیر شادی کو کہتے ہیں اور شیر دودھ کوکہتے ہیں، مجھے بتائیں یہ کس کےساتھ ناانصافی ہے؟

انہوں نے 160گراموفون ریکارڈنگز بھی کیے ہیں اور موجودہ جتنے بھی بلوچی زبان کے بڑے گلو کار ہیں ، ان سب نے تاجل کی غزلیں گائی ہیں۔

دوسری جانب ،بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ِبلوچی کے پروفیسراور بلوچ میوزک پروموٹرز سوسائٹی کے رکن وکمپیئر زاہد دشتی کا ماننا ہے کہ بلوچی زبان کی گلوکاری میں فیض بلوچ کا مقام سب سے اعلیٰ ہے۔

پروفیسر دشتی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا علی ظفر نے جو گانا گایا ہے وہ دراصل  فیض محمد بلوچ کا مشہور گانا ہے ۔

’فیض بلوچ کے گائے ہوئے بلوچی گیت ہمارے ہاں شادی بیاہ اور نئے آنے والے گلو کاروں کے لیےمشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘

 دشتی نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ علی ظفر جیسے مشہور گلوکار نے اس گانے کو گانے سے قبل اس کے اصل وارثوں سے رابطہ کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔

انہوں نے گانے کے بول میں موجود خامیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا  بعض ایسے الفاظ ادا کیے گئے جن کے معنی الٹ ہوگئے ہیں۔

 دشتی کے بقول،فیض  محمد بلوچ کے  بیٹے تاج ایک موسیقار اور بلوچی زبان کے گلوکاروں کے لیے دھنیں بناتے ہیں، جو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کس گانے کو کیسے گانا چاہیے۔

ان کے مطابق یہ گانا ’ہمارے ایک لیجنڈ گلوکار کا ہے لیکن علی ظفر نے اس گانے کے ساتھ  انصاف نہیں کیا۔

زاہد دشتی کے مطابق، گانے میں عروج فاطمہ کو شامل کرکے ناصرف اس کی ہیئت بدل دی گئی بلکہ الفاظ کی درست ادائیگی نہ کرکے اس کی بے توقیری کی گئی۔ 

تاج محمد تاجل اپنے والد کے گائے گیتوں کی بے توقیری سے جہاں نالاں ہیں وہی وہ اب اپنی تخلیق کردہ دھنیں بھی سامنے لانے سے کتراتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی