وہ میڈیکل کالج ہی کیا، جہاں لڑائی نہ ہو!

اگر آپ میڈیکل سٹوڈنٹ ہیں اور آپ نے پانچ سالوں میں کوئی لڑائی نہیں کی، نہ ہی کسی لڑائی میں حصہ لیا، کلاس کے پنگوں میں ٹانگ نہیں اڑائی تو یقین مانیے آپ نے میڈیکل کالج میں کچھ بھی نہیں کیا۔

میڈیکل کالج کی لڑائیاں بھی بڑی دلچسپ ہوتی ہیں، دیگر کالجوں میں تو گروپنگ ہوتی ہے، لیکن میڈیکل کالج میں گروپنگ ہوتی ہے، اس گروپنگ کے اندر سب گروپنگ ہوتی ہے، اس سب گروپنگ کے جو ارکان ہوتے ہیں، ان کے درمیان بھی ایسی لڑائی ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ!  (تصویر: بشکریہ ڈینٹل نیوز  پاکستان)

’وہ فائنل ایئر کا ابوبکر ہے نا، شوخا سا ۔۔۔ اپنے آپ کو بڑا چالاک سمجھتا ہے، اپنی پروکسی لگوا لیتا ہے، لیکن جب ہماری لگ جائے تو اسے موت پڑ جاتی ہے۔ وہ ہوتا کون ہے ہماری پروکسی کٹوانے والا، اب میں دیکھتی ہوں کہ وہ پروکسی لگواتا تو لگواتا کیسے ہے!‘

ہر میڈیکل کالج کا سٹوڈنٹ اس فقرے سے واقف ہے، کہنے کو تو یہ ایک عام سا فقرہ ہے، مگر اس کے پیچھے لڑائیوں کی خونریز داستانیں رقم ہیں۔ ایسی لڑائیاں جن کی جنگوں کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

میڈیکل کالج اور لڑائیاں ایسے ہی لازم و ملزوم ہیں جیسے میڈیسن وارڈ اور percussion، یہ دونوں ایسے ضروری ہیں جیسے غیر حاضری اور پروکسی، یہ دونوں ایسے ہی قریب ہیں جیسے examination اور bedside۔

اگر آپ میڈیکل سٹوڈنٹ ہیں اور آپ نے پانچ سالوں میں کوئی لڑائی نہیں کی، نہ ہی کسی لڑائی میں حصہ لیا، کلاس کے پنگوں میں ٹانگ نہیں اڑائی تو یقین مانیے آپ نے میڈیکل کالج میں کچھ بھی نہیں کیا، لڑائیوں کے بنا آپ میڈیکل کالج میں انجوائے کر ہی نہیں سکتے!

اگر آپ کی کلاس میں سپورٹس ویک، تھیم ڈے، کلاس فنکشن، ’مطالعاتی‘ دورے کی وجہ سے لڑائی نہیں ہوئی، پنگے نہیں ہوئے تو آپ کسی بھی طور پر میڈیکل کالج کے سٹوڈنٹ ہرگز نہیں، ہر کالج میں ان موقعوں پر لڑائی لازم و ملزوم ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میڈیکل کالج کی لڑائیاں بھی بڑی دلچسپ ہوتی ہیں، دیگر کالجوں میں تو گروپنگ ہوتی ہے، لیکن میڈیکل کالج میں گروپنگ ہوتی ہے، اس گروپنگ کے اندر ’سب‘ گروپنگ ہوتی ہے، اس سب گروپنگ کے جو ارکان ہوتے ہیں، ان کے درمیان بھی ایسی لڑائی ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ!

ایک گروپ کہتا ہے کہ ہم نے یہ کرنا ہے، دوسرا کہتا کہ ہم نے وہ کرنا ہے، اسی کشمکش میں تیسرے گروپ کی فلمی انٹری ہوتی ہے تو باقی دو ہکا بکا رہ جاتے ہیں۔

میڈیکل سٹوڈنٹس بھی کمال کی لڑائی لڑتے ہیں، جو لائق ہوتے ہیں وہ آپس میں اس وجہ سے لڑتے ہیں کہ وہ کسی طرح پروفیسر کی گڈ بکس میں آ جائیں تاکہ distinction آجائے اور جو نالائق ہوتے ہیں وہ آپس میں اس لیے لڑتے ہیں کہ وہ کسی طرح نظروں میں آکر پاس ہو جائیں۔

سال بعد سپورٹس ویک آتا ہے تو اس لیے لڑتے ہیں کہ میں نے آرگنائز کروانا ہے، پھر وہ لڑائی ہوتی ہے کہ ہلاکو خان بھی دنگ رہ جائے۔

پھر اگر کوئی ٹور کی بات چھیڑ دے تو سونے پہ سہاگا، پھر اس بات پہ لڑتے ہیں کہ اگر ٹور جانا ہے تو جانا کہاں ہے؟ جانا تو جانا کیوں؟ کتنے دن کے لیے جانا ہے؟ جانا کیسے ہے؟ پھر جتنی زیادہ گروپس اتنی زیادہ لڑائیاں!

لڑائی صرف ان باتوں تک محدود نہیں رہتی، اگر ایک گروپ نے کسی دوسرے گروپ کے کسی رکن کی پروکسی کاٹ دی یا کٹوا دی تو پھر پانی پت کی جنگ شروع ہو جاتی ہے جو سالوں تک چلتی ہے۔ کلاس ٹیسٹ ہو تو ہر گروپ اپنی جگہ پکی کر لیتا ہے، اگر کوئی بندہ وہاں بیٹھ جائے تو کارگل کی جنگ شروع!!!

ان لڑائیوں کے دوران کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ ہم نیوٹرل ہیں، لیکن دراصل اندر ہی اندر کسی کے ساتھ ملے ہوتے ہیں، یہ جلتی پہ تیل ڈالنے کی کیٹیگری میں آتے ہیں، ان کا بس چلے تو آگ پہ تیل نہیں پورا پیٹرول پمپ ہی چھڑک دیں تاکہ لڑائی کبھی ختم ہی نا ہو!

کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو ہر لڑائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں مگر جیسے ہی بات آگے جاتی ہے، یہ آرام سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں، یہ آتے ہیں چنگاری لگانے کی کیٹیگری میں۔ یہ میڈیکل سٹوڈنٹس بہت میسنے ہوتے ہیں۔

ابھی پرسوں کی بات ہے، ایک صاحب جن کا نام کلاس کے ہر پنگے میں آتا ہے، ہر کسی سے لڑتے ہیں، ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ اتنا لڑتے کیوں ہیں، تو آگے سے بولے: ’میں نے تو آج تک کسی سے لڑائی نہیں کی۔‘

اللہ اللہ، ایسی سادگی پہ قربان جائے!

کلاس میں تو لڑائی ہوتی ہی رہتی ہے، سپورٹس ویک میں کلاسز کی آپس کی لڑائیاں بھی قابل دید ہوتی ہیں، اس sports rivalry میں ایسے ایسے فقرے کسے جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

اس سال فورتھ اور فائنل ایئر کی لڑائی بھی کچھ ایسی تھی، گرلز کرکٹ کا میچ تھا، ایک صاحبہ رن آؤٹ ہو گئیں، انہوں نے ڈال دیا رولا!!  ان کی سپورٹ میں ان کی کلاس نے پچ پر دھرنا دے دیا، دھرنا بھی اچھا خاصا، پھر ایسی نعرے بازی ہوئی کہ ڈی چوک بھی چونک کر رہ جائے!

یہ لڑائیاں صرف کلاس تک محدود نہیں رہتیں، ان کا دائرہ سوشل میڈیا تک پھیل جاتا ہے، کلاس میں تو گروپنگ ہوتی ہے ہی، ساتھ ہی فیس بک پہ بھی گروپ بن جاتے ہیں، میسنجر ڈپلومیسی عروج پر ہوتی ہے، یوں ایک نہیں، دو نہیں بلکہ تین تین محاذوں پہ لڑائی لڑی جاتی ہے!

اگر یہ لڑائی دو گرلز گروپس کے درمیان ہوتی ہے تو پھر لڑائی لڑائی نہیں رہتی بلکہ ایٹمی جنگ بن جاتی ہے، وہاں وہاں سے فقرے کسے جاتے ہیں کہ بندہ سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ یا اللہ ماجرہ کیا ہے؟ ایک گرلز گروپ کہتا ہے کہ ہم نے یہ کرنا ہے، دوسرا کہتا ہے اچھا یہ کلاس تمہارے ابو جان کی ہے جو تم کرو گی اور پھر تیسری جنگِ عظیم شروع۔

کل ہی ایک صاحبہ کہہ رہی تھی: ’میں بھی دیکھتی ہوں کہ وہ یہ کرتی ہے تو کرتی کیسے؟ وہ مجھے جانتی نہیں‘، جسے کہہ رہی تھی اس نے سن لیا، وہ آگے سے بولی: ’ہاں میں جانتی ہوں تمہیں، کیونکہ تم مراثن ہو!‘ پھر دنیا والوں نے نئی لڑائی دیکھی!

ان سب کے باوجود، جب باری آتی ہے کلاس کی، تو سب ایسے اکٹھے ہوتے ہیں کہ جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔  پھر ایسا بھائی چارہ دکھاتے ہیں کہ بھائی بھی چارا کھانے پر مجبور ہو جائے۔

میڈیکل کالج کا حسن ہی یہ لڑائیاں ہیں، اگر یہ لڑائیاں نہ ہوں تو وہ کالج تو ہوسکتا ہے میڈیکل کالج ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اگر لڑائیاں لمبی ہونی پہ آئیں تو سالوں چلیں، ختم ہونے پہ آئیں تو منٹوں میں ختم!

سیانے کہتے ہیں کہ لڑائی ہوتی ہی وہاں ہے جہاں پیار ہو، احساس ہو، اگر احساس نہ ہو تو لڑائی کیسی؟ ہم ان سے ہی لڑتے ہیں جنہیں ہم کھونے سے ڈرتے ہیں، جن کے بنا ہم خود کو ادھورا تصور کرتے ہیں۔

میڈیکل کالج کے پانچ سال بھی ایسے ہی ہوتے ہیں، زندگی سے بھرپور، احساس سے مزین، جہاں لڑائیاں ہوتی ہیں اور بہت ہوتی ہیں۔ یہ لڑائیاں لڑتے لڑتے ہی پانچ سال گزر جاتے ہیں، جب جدائی کا وقت آتا ہے تو سب نم آنکھیں لیے منہ بنائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ پھر کوئی فیصل آبادی جگت مار دیتا ہے، سب ہنس دیتے ہیں اور بس لڑائی ختم!

(مضمون نگار یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور میں فائنل ایئر ایم بی بی ایس کے طالب علم ہیں)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس