کیا پولیس آزادی مارچ سے نمٹنے میں حکومت کا ساتھ دے گی؟

پنجاب پولیس کے بعض افسران اس حوالے سے تحفظات کا کا شکار ہیں کیونکہ ماضی میں احتجاج اور مارچ کے دوران بدنظمی اور تشدد کی ذمہ داری پولیس پر ڈالی جاتی رہی ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب کے کئی ضلعی پولیس افسران تحفظات کا شکار ہیں(اے ایف پی)

پاکستان میں سیاسی منظر نامے پر ان دنوں ایک بار پھر اپوزیشن کا ’آزادی مارچ‘ اور ممکنہ دھرنا چھایا ہوا ہے۔

اس حوالے سے ملک بھر میں اکتوبر کے آخر میں پیدا ہونے والی ممکنہ صورت حال پر بحث جاری ہے۔

ایک طرف مولانا فضل الرحمن اور دیگر اپوزیشن جماعتیں حکومت مخالف آزادی مارچ کامیاب بنانے کی حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف ہیں، تو دوسری جانب حکومت نے بھی اپوزیشن کے سیاسی شو کو ناکام بنانے اور اقتدار کو بچانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔

حکومتی رہنماؤں کے مطابق آزادی مارچ کو پُرامن رکھنے کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کو سونپ دی گئی ہے۔

تاہم ذرائع کے مطابق، بعض پولیس افسران ا س حوالے سے تحفظات کا کا شکار ہیں،کیونکہ ماضی کے واقعات میں احتجاج اور مارچ کے دوران بدنظمی اور تشدد کی ذمہ داری پولیس پر ڈالی جاتی رہی ہے۔

 اس بار پولیس حکام دفاعی حکمت عملی بنانے پر غور کر رہے ہیں، تاہم حکومتی احکامات پر عمل کرنا ماتحت اداروں کا فرض ہوتاہے۔

حکومت کی منصوبہ بندی

حکومتی عہدے دار مولانا فضل الرحمن کی جانب سے 27اکتوبر کو آزادی مارچ کے اعلان پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔

 دوسری جانب حکومت اسلام آباد،خیبر پختونخوا اور پنجاب میں آزادی مارچ میں شرکت کو کم سے کم رکھنے کے لیے حکمت عملی بنارہی ہے۔

یہ سمجھا جا رہا ہے کہ سیاسی تحریک کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار آبادی کے لحاظ سے ملک کےسب سے بڑے صوبہ پنجاب پر ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کو آزادی مارچ میں بھر پور شرکت پر رضامند کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ویسے تو ن لیگ کے قائد نواز شریف نے مارچ میں شرکت کا اعلان کردیا ہے لیکن حتمی معاملات طے کرنے کے لیے 18 اکتوبر کو مولانا فضل الرحمان لاہور میں شہباز شریف سے ملاقات کریں گے۔

 ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب کے مطابق، دونوں رہنما مشترکہ پریس کانفرنس میں آزادی مارچ کی منصوبہ بندی سے متعلق اعلان کریں گے۔

ادھر، کے پی کے اور پنجاب حکومت کے عہدے دار مارچ ناکام بنانے کے لیے مختلف شخصیات سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

کے پی کے حکومت نے جے یو آئی( ف) کے رضاکار وں کی یونیفارم میں مارچ کی تربیت پر کارروائی کا اعلان کر رکھا ہے تو پنجاب میں بھی پولیس کو الرٹ کیا جارہاہے۔

آزادی مارچ پر سکیورٹی اداروں کی تیاری

سپیشل برانچ کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردوکوبتایاکہ وہ صوبے بھر میں مسلم لیگ ن ،جے یو آئی (ف) اورپیپلز پارٹی کے متحرک کارکنوں کی فہرستیں بنا رہے ہیں تاکہ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاسکے۔

پولیس ذرائع کے مطابق، سانحہ ماڈل ٹاؤن کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب کے کئی ضلعی پولیس افسران تحفظات کا شکار ہیں۔

انہوں نے آپس میں مشاورت کی ہے کہ آزادی مارچ کے دوران بغیر تحریری حکم شرکا کو روکنے سے متعلق پالیسی بننی چاہیے اور اس بارے میں آئی جی پنجاب کو آگاہ کیاجائے تاکہ کسی ناخوشگوار واقعے پر ماضی کی طرح ذمہ داری صرف پولیس افسران اور اہلکاروں پر عائد نہ ہوسکے۔

اس معاملے پر جب ایڈیشنل آئی جی پنجاب انعام غنی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا قانونی طورپرپنجاب پولیس حکومتی احکامات کی تعمیل کی پابند ہے، آزادی مارچ کے موقعے پر حالات کے مطابق جو بھی حکم ملے گا اس پر عمل کیاجائے گا۔

انہوں نے مزید کہا اگر وفاقی حکومت کے کہنے پر پنجاب حکومت نے اپنی پولیس نفری اسلام آباد یا کے پی کے میں طلب کی تو وہاں اہلکاروں کو بھجوایاجائے گا کیونکہ پولیس فورس امن و امان قائم رکھنے کی پابند ہے، تاہم ہر قسم کا فیصلہ حالات کے مطابق اعلیٰ سطح کے احکامات پر کیاجاتاہے۔

ان سے پوچھاگیاکہ بعض پولیس افسران میں آزادی مارچ کے شرکا کوروکنے سے متعلق تحفظات پائے جاتے ہیں اسے کیسے دور کیا جائے گا؟ انہوں نے جواب دیا پنجاب کے تمام افسران آئی جی کے ماتحت ہیں، حکومتی ہدایت پر آئی جی پنجاب جو بھی حکم دیں گے ہر افسر اور اہلکار اس کی تعمیل کا پابند ہو گا اور جوحکم نہیں مانے گا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ آزادی مارچ جیسے بڑے ایونٹ پر پولیس شہریوں کو تحفظ فراہم کرے گی جو ان کی ڈیوٹی ہے، لیکن صورت حال خراب ہونے کی صورت میں قانون کے مطابق ایکشن لیاجائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان