جنگ بندی نہیں کریں گے: اردوغان کا ٹرمپ کو پیغام

ترکی کے صدر نے صحافیوں کو یہ بھی بتایا کہ وہ منبج شہر میں شام کی سرکاری فوج کی موجودگی سے بھی پریشان نہیں ہیں۔ وہ صرف ان علاقوں میں کرد جنگجوؤں کی موجودگی نہیں چاہتے۔

ہم اس علاقے کو کلیئر کرنے تک جنگ بندی کا اعلان نہیں کر سکتے:صدر اردوغان(اے ایف پی)

شام میں کرد ملیشیا کے خلاف فوجی کارروائی کرنے پر امریکہ کی جانب سے عائد کی جانی والی پابندیوں کے ردعمل میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کہا ہے کہ ترکی ’کبھی جنگ بندی کا اعلان نہیں کرے گا‘ اور وہ پابندیوں سے نہیں ڈرتے۔

صدر اردوغان نے عالمی برادری کی جانب سے سیزفائر کے مطالبے پر رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا: ’وہ کہتے ہیں جنگ بندی کا اعلان کریں، ہم ایسا نہیں کر سکتے۔‘

ترکی کے صدر نے صحافیوں کو یہ بھی بتایا کہ وہ منبج شہر میں شام کی سرکاری فوج کی موجودگی سے بھی پریشان نہیں ہیں۔ وہ صرف ان علاقوں میں کرد جنگجوؤں کی موجودگی نہیں چاہتے۔

ترکی نے ایک ہفتہ قبل شام کے شمالی علاقوں سے کرد ملیشیا کو ختم کرنے کے لیے فوجی کارروائی کا آغاز کیا ہے۔

صدر اردوغان کا کہنا تھا: ’ہم اس علاقے کو کلئیر کرنے تک جنگ بندی کا اعلان نہیں کر سکتے۔‘

ترک اخبار ’حریت‘ کے مطابق صدر اردوغان آزربائیجان سے ترکی واپسی پر دوران پرواز صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔

دوسری جانب روس کا کہنا ہے کہ روسی صدر ولادی میر پوتن نے ترکی کے صدر اردوغان سے شمالی شام کے معاملے پر بات کی ہے اور دونوں رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ’ترکی اور شام کی سرکاری فوج کے درمیان تنازعات سے بچا جائے۔‘ دونوں رہنماؤں نے ’شام کی علاقائی سالمیت‘ پر بھی اتفاق کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کردوں کے ساتھ معاہدے کے تحت  شامی فوج شمالی سرحد پر پہنچ گئی ہے جبکہ روسی فوج اس علاقے میں ترکی اور شام کی فوجوں کے درمیان کسی بھی کشیدگی سے بچنے کے لیے بھی پہنچ چکی ہے۔

کریملن کے مطابق صدر پوتن نے زور دیا کہ داعش کے جنگجو جو کرد ملیشیا کی تحویل میں ہیں انہیں فرار ہونے کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ترکی کے صدر نے ’جلد سے جلد‘ روس کے دورے کی دعوت بھی قبول کر لی ہے۔

نیٹو کے سفیروں کے درمیان بدھ کو ترکی کے شمالی شام میں جاری آپریشن کے حوالے سے ملاقات ہو گی۔ کئی اتحادی ممالک نے ترکی کی فوج کی اس کارروائی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

نیٹو کے سیکٹری جنرل جینز سٹولٹنبرگ نے منگل کو کہا کہ ’کئی نیٹو اتحادیوں نے ترکی پر اس حوالے سے سخت تنقید کی ہے۔‘

29 ملکی نیٹو اتحاد میں امریکہ کے بعد ترکی سب سے بڑی فوج رکھنے والا ملک ہے۔

بدھ کو برسلز میں نیٹو سفیروں کے درمیان ہونے والی ملاقات کے علاوہ جینز سٹولٹنبرگ کے مطابق اگلے ہفتے ہیڈکوارٹرز میں اتحادیوں کی وزرا دفاع کی ملاقات میں بھی اس معاملے پر بات کی جائے گی۔

نیٹو کے طریقہ کار کے تحت اتحادی ممالک کسی اور نیٹو ممبر سے اپنی علاقائی حدود کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں مشاورتی اجلاس بلانے کی درخواست کر سکتا ہے۔

کئی یورپی اتحادیوں کو ترکی کی کارروائی کے باعث داعش جنگجوؤں کی قید خانوں سے ممکنہ طور پر فرار ہونے پر تشویش لاحق ہے کیونکہ یہ قیدی واپس اپنے ممالک آکر خطرہ بن سکتے ہیں۔

 

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے اے پی کی معاونت شامل ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا