داعش کی نو فرانسیسی جنگجو خواتین قید سے بھاگ نکلیں

یہ خواتین اس وقت بھاگیں جب ترکی کے حملے کے بعد حراستی کیمپ کے محافظ چوکیاں چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔

شمال مشرقی شام میں الہول کیمپ کا ایک منظر (اے ایف پی)

فرانس کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ نو فرانسیسی خواتین، جن پر داعش کی رکن ہونے کا شبہ ہے، شام میں کردوں کے زیرانتظام حراستی مرکز سے بھاگ نکلی ہیں۔

یہ خواتین اتوار کو عین عیسیٰ کے حراستی کیمپ سے فرار ہوئیں۔ کیمپ میں داعش کے جنگجوؤں کے خاندانوں کو سینکڑوں دوسرے افراد کے ساتھ رکھا گیا ہے۔

 یہ خواتین اس وقت بھاگنے میں کامیاب ہوئیں جب ترکی کے حملے کے بعد حراستی کیمپ کے محافظ چوکیاں چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔

کرد حکام نے کہا ہے حراستی کیمپ کے اِس حصے سے تقریباً 800 افراد فرار ہوئے ،جہاں غیرملکیوں کو رکھا گیا ہے۔

کم از کم دو برطانوی خواتین اور ان کے بچوں کو بھی اسی کیمپ میں رکھا گیا تھا لیکن اب ان کا کچھ معلوم نہیں۔ ان برطانوی شہریوں میں سے ایک کی شناخت طوبیٰ گوندل کے نام سے ہوئی ہے، جو مشرقی لندن کی رہنے والی ہیں۔

 انہوں نے شام میں داعش میں شمولیت اختیار کی اور اپنی سربراہی میں کام کے لیے دوسروں کو بھی بھرتی کیا۔

دوسری خاتون مشرقی لندن کی ہی زارا اقبال ہیں۔ شام میں قیام کے دوران دونوں خواتین نے داعش کے جنگجوؤں سے شادی کی۔

شام میں انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق عین عیسیٰ کیمپ میں 12 ہزار کے قریب بے گھر افراد مقیم ہیں، جن میں داعش سے وابستہ ایک ہزار خواتین اور ان کے بچے بھی شامل ہیں۔ کیمپ میں مقیم افراد ترک فوج کی پیش قدمی کی وجہ سے خوف کا شکار تھے۔

فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں ایو لا دریان نے اس بارے میں تو کچھ نہیں بتایا کہ فرار ہونے والی فرانسیسی خواتین اس وقت کہاں ہیں لیکن ایک خاتون کے خاندان کے ایک رکن کے وکیل کے مطابق ان خواتین میں سے کم از کم تین کے بارے میں خیال ہے کہ وہ شام میں داعش کے دوسرے ارکان کے ساتھ جا ملی ہیں۔

خاندان کی وکیل میری ڈوز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا فرار ہونے والی ایک خاتون نےاپنی ایک رشتہ دار خاتون کو پیغام بھیجا ہے جس کے مطابق داعش نے انہیں’ڈھونڈ نکالا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنے پیغام میں خاتون نے مبینہ طور پر لکھا ’ہمیں ابھی پتہ چلا کہ جس نے ہمیں ڈھونڈ نکالا وہ داعش ہے۔‘

اس وقت ہزاروں یورپی خواتین اور ان کے بچے شام کے حراستی مراکز میں موجود ہیں۔ ان لوگوں کو داعش کی خلافت ختم ہونے کے بعد پکڑا گیا تھا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس وقت کم از کم 19 برطانوی خواتین شام میں ہیں ،جنہیں مختلف کیمپوں میں رکھا گیا ہے، تقریباً 30 بچے بھی ان کے ساتھ مقیم ہیں۔

یورپی ملک شام میں مقیم اپنے شہریوں کو واپس لینے سے گریز کر رہے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ ان کی واپسی پر انہیں سزا دینا مشکل ہو گا اور وہ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بنیں گے۔

فرانس کے وزیر خارجہ نے کہا کہ جو خواتین داعش میں شامل ہونے کے لیے شام گئیں ، وہ اُسی علاقے میں انصاف کا سامنا کریں۔ تاہم فرانسیسی حکومت ان کے بچوں کو واپس لانے پر غور کرے گی۔

وزیرخارجہ نے کہا، ’جو فرانسیسی خواتین 2015 میں اس علاقے گئیں انہیں علم تھا کہ وہ کیا کر رہی ہیں۔ وہ سیاح نہیں ہیں۔ وہ فرانس کے خلاف لڑنے والی جنگجو ہیں اور اگر ممکن ہوا تو انہیں(عراق میں)مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا۔‘

وزیر خارجہ نے بی ایف ایم ٹیلی ویژن کو بتایا وہ قانونی طریقہ کار پر بات چیت کے لیے عراق جائیں گے جس کے تحت شام میں قید ’جہادیوں‘ پر مقدمہ چلایا جا سکے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ