جادوگرنیوں کی پُراسرار دنیا

یورپ میں جادو کا الزام لگا کر ہزاروں خواتین کو زندہ جلا دیا گیا، پھر روشن خیالی کے دور میں ان کی جان بخشی ہوئی۔

(پبلک ڈومین)

عہد وسطیٰ میں تعلیم کی کمی اور ناواقفیت کی وجہ سے زندگی کے ایسے بہت سے پہلو تھے جنہیں انسان کی عقل و فہم سے بالاتر سمجھا جاتا تھا، اس لیے وہ انہیں جادو سے منسوب کر کے اُن کا جواز ڈھونڈ لیتا تھا۔

جادو کے سلسلے میں خاص طور سے عورتوں کو زیادہ ملوث کیا جاتا تھا اور ان کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں مشہور ہو جاتی تھیں، جیسے برصغیر ہندوستان میں چڑیل کے بارے میں مشہور تھا کہ اُس کے پاﺅں کے پنجے اُلٹے ہوتے ہیں اور وہ بچوں کا کلیجہ کھا جاتی ہے۔

ہمارے ہاں یہ بھی مشہور ہے کہ دشمن یا حریف پر عاملوں کے ذریعے جادو کرا کے اُنہیں نقصان پہنچایا جاتا ہے اور اس جادو کے اثر کو جادو ہی کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ خطرناک کالا جادو ہوتا ہے، جس پر کیا جاتا ہے اس کی جان و مال کا نقصان یقینی ہوتا ہے۔

یورپ میں اگرچہ لوگوں کا جادو پر پرانا یقین تھا مگر 14ہویں صدی میں خاص طور سے یہ جادوگر عورتوں کے خلاف بھرپور انداز میں اُٹھا۔ مورّخین نے اس کی کئی وجوہات بتائی ہیں۔ یہ عورتوں کے خلاف اس لیے تھا کیونکہ ابتدائی تہذیب سے لے کر اب تک عورتوں کو جڑی بوٹیوں کے بارے میں علم تھا کیونکہ وہ صدیوں سے جڑی بوٹیاں اکٹھی کرتی تھیں اور اُن کے استعمال سے واقف تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ علم سینہ بہ سینہ عورتوں میں منتقل ہو رہا تھا لیکن جب مرد معالج اس پیشے میں آئے تو انہیں عورتوں سے مقابلہ کرنا پڑا لہٰذا اس علم کو ختم کرنے کے لیے اُن پر جادوگرنی کا الزام لگایا گیا اور اُن کے بارے میں ایسی افواہیں پھیلائی گئیں جن سے عام لوگوں میں اُن کے خلاف نفرت اور ڈر پیدا ہوا۔

مثلاً یہ کہا جانے لگا کہ یہ جادوگرنیاں مذہب کی مخالف ہیں، شیطان کو پوجا کرتی ہیں اور اکثر راتوں کو جنگلوں میں جا کر اپنی شیطانی رسم و رواج کو ادا کرتی ہیں، رنگ رلیاں مناتی ہیں اور شیطان خود اس محفل میں آ کر ان کی سرپرستی کرتا ہے اور اُنہیں یہ علم دیتا ہے جس کے ذریعے یہ لوگوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

جب ان کے بارے میں یہ باتیں مشہور ہوئیں تو بدقسمتی سے اس کا شکار وہ بوڑھی عورتیں ہوئیں جو اکیلی اور تنہا رہتی تھیں اور جو اپنی روزی کے لیے ٹھیلوں پر مختلف جڑی بوٹیاں اور کچھ کھانے پینے کا سامان فروخت کرتی تھیں۔

عام طور سے لوگ وباﺅں اور بیماریوں سے سخت خوفزدہ رہتے تھے کیونکہ اُنہیں اب تک اس کا علم نہیں تھا کہ یہ وبائیں کیوں آتی ہیں اور اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج کیا ہے کیونکہ اس سے پہلے یورپ بلیک ڈیتھ یا طاعون کی وبا سے گزر چکا تھا جس میں تقریباً اُس کی 40 فیصد آبادی تہس نہس ہو گئی تھی۔

یہی وجہ تھی کہ اگر کوئی وبا آتی، اُن کے جانور مرتے وہ خود بیمار ہوتے خشک سالی آتی تو ان تمام کا الزام وہ کسی جادوگرنی پر ڈال دیتے۔ جب وہ کسی کو جادوگرنی قرار دیتے تو اُس کا فیصلہ بھی لوگ خود ہی کر لیا کرتے تھے اور اسے پکڑ کر مار ڈالتے تھے۔

جب جادوگرنیوں کے خلاف مہم تیز ہوئی تو چرچ نے اس میں دخل اندازی کی اور Inquisition کہلائے جانے والے عمل کے تحت جادوگرنیوں پر مقدمات چلائے گئے۔

اس لیے مقدمے سے پہلے یہ ثابت کرنا ہوتا تھا کہ کن وجوہات کی بنا پر اُسے جادوگرنی کہا گیا ہے۔ اگر الزام لگانے والا غلط ثابت ہو جاتا تھا تو اُس کو سزا دی جاتی تھی۔ چرچ کے عالموں نے جادوگرنی ہونے کی جو شرائط مقرر کر رکھیں تھیں ان میں سب سے اہم الزام یہ تھا کہ وہ عیسائی مذہب سے منحرف ہے اور شیطان کی پیروکار ہے، پھر اسے مختلف قسم کے امتحانات سے گزرنا ہوتا تھا، اس کے جسم کے مختلف حصوں میں سوئیاں چبھوئی جاتی تھیں اور دیکھا جاتا تھا کہ کیا اُس کے جسم سے خون نکلتا ہے یا نہیں۔

اس کے بعد اس کو برہنہ کر کے اُس کے جسم میں ایسے نشانات کو تلاش کیا جاتا تھا جو اُن کے نزدیک شیطان اور جادوگرنی کے درمیان معاہدے کی علامت ہوتے تھے۔

کبھی کبھی جادوگرنی کو دریا میں پھینک دیا جاتا تھا اگر وہ تیرتی رہے تو وہ بے گناہ قرار پاتی اور ڈوبنے کی صورت میں گناہ گار یا قصوروار ٹھہرتی تھی۔ جادوگرنیوں کو ثابت کرنے کے لیے چرچ کے عالموں نے کئی کتابیں لکھیں ان میں خاص طور سے ایک کتاب Hammer of Witch Craft مشہور ہوئی۔

انکلوژیشن میں جب جادوگرنیوں پر مقدمات چلائے گئے تو سب سے پہلے ان سے یہی سوالات کیے جاتے تھے کہ کیا وہ مذہب سے منحرف ہیں، شیطان کی پوجا کرتی ہیں، جھاڑو پر بیٹھ کر فضا میں اُڑتی ہیں اور کیا اپنے جادو سے لوگوں کو نقصان پہنچاتی ہیں؟

اگر پادری ان سوالات کے جوابوں سے مطمئن نہیں ہوتے تھے تو پھر ان عورتوں کو ہولناک اذیتیں دی جاتی تھیں، جس کے بعد وہ مجبوراً اپنا قصور تسلیم کر لیتی تھیں تو بطور سزا انہیں زندہ جلا دیا جاتا تھا۔

یورپ میں 1500 سے 1660 تک 80 ہزار کے لگ بھگ جادوگرنیوں کو موت کی سزا دی گئی۔ جادوگرنیوں پر یہ مقدمات یورپ کے ہر ملک میں چلائے گئے، لیکن ان ملکوں میں جرمنی سرفہرست تھا اور آئرلینڈ میں یہ تعداد سب سے کم تھی۔

سکینڈے نیوین ملکوں میں جب جادوگر عورتوں پر مقدمہ چلایا جاتا تھا تو تصور یہ تھا کہ اگر اس کا خون لے کر جادو شدہ شخص کے جسم پر مل دیا جائے یا اُس کے خون کے قطرے پانی یا شراب میں ملا کر پلائے جائیں تو وہ صحت مند ہو جاتا ہے۔

جادوگرنیوں کے خلاف اس مہم کا اُس وقت خاتمہ ہوا جب سائنس اور ٹیکنالوجی اور علم طب میں ترقی ہوئی۔ اس نے ان بہت سے توہمات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جو عہد وسطیٰ سے لوگوں کے ذہنوں میں بھرے ہوئے تھے۔

جادوگرنیوں کے ان مقدمات سے جو باتیں ہمارے ذہن میں آتی ہیں وہ یہ ہیں: ایک تو یہ کہ اس کاشکار عورتوں کی اکثریت ہوئیں اور وہ بھی بوڑھی اور غریب۔ جن کو تحفظ دینے والا کوئی نہیں تھا دوسرے کسی بھی معاشرے کی جہالت اور ناواقفیت حالات کو خراب کرنے کی اہم وجہ ہوتی ہے۔ تیسرے جادوگرنیوں کے خلاف عورت کے جڑی بوٹیوں کے علم کو ختم کر کے اسے مکمل طور پر مرد کے ماتحت کر نا تھا۔ اس سلسلے میں ہزارہا معصوم عورتوں کی جانیں گئیں اور بالآخر جب علم کا پھیلاﺅ ہوا تو اُس سے توہمات اور نفرتوں کا خاتمہ ہوا۔

بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں ابھی تک جادوگر مردوں اور عورتوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو لوگوں کی جہالت اور کم علمی سے فائدہ اُٹھا کر اپنی تجارت کو فروغ دے رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ