ایک وزارت جس کے 100 ملازمین بے روزگار ہونے والے ہیں

وفاقی حکومت ایک کروڑ نوکریوں کے دعووں کے برعکس پچھلے ادوار میں فراہم کی گئی نوکریاں اور اہم منصوبے بھی ختم کر رہی ہے۔

اسلام آباد میں ملازمت حاصل کر نے کے لیے امیدواروں کی لمبی قطار موجود ہے۔ فائل فوٹو (انڈپینڈنٹ اردو)۔

وفاقی حکومت الیکشن سے پہلے کیے گئے ایک کروڑ نوکریوں کے دعووں کے برعکس پچھلے ادوار میں فراہم کی گئی نوکریاں اور اہم منصوبے بھی ختم کرنے جا رہی ہے۔ وفاقی وزارت منصوبہ بندی، ترقیات و اصلاحات کے حالیہ ایک فیصلے کی وجہ سے 100 کے قریب افراد بے روزگار ہو جائیں گے جبکہ وزارت کے دو اہم ترین منصوبے بھی بند ہو جائیں گے۔

وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے گذشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’حکومت 400 محکمے ختم کر رہی ہے۔ نوکریوں کے لیے حکومت کی طرف نہیں دیکھا جا سکتا۔‘ فواد چوہدری کو اس بیان پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیوں کہ تحریک انصاف حکومت ایک کروڑ نوکریاں دینے کے وعدے کے ساتھ اقتداد میں آئی تھی۔ تنقید کے بعد فواد چوہدری نے وضاحت کی کہ ’ نوکریاں حکومت نہیں پرائیویٹ سیکٹر دیتا ہے حکومت نے ماحول پیدا کرنا ہے جہاں نوکریاں ہوں یہ نہیں کہ ہر شخص سرکاری نوکری ڈھونڈے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحریک انصاف کی حکومت ایک کروڑ نوکریاں دینے کے وعدے کے ساتھ حکومت میں آئی تھی مگر ان منصوبوں میں کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ ہم نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا مگر ہمیں ’تبدیلی‘ کا یہ صلہ مل رہا ہے۔

22 اگست 2019 کو وزارت منصوبہ بندی میں ہونے والی میٹنگ میں چار منصوبوں کو رواں سال کے آخر تک بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان منصوبوں میں وزارت منصوبہ بندی کے کمپیوٹر سینٹر کی اپ گریڈیشن، وفاقی ترقیاتی منصوبوں کی مانیٹرنگ کا منصوبہ، موسمیاتی تبدیلی اورماحولیات کے سیکشن کا قیام اوراسی وزارت کے تحت بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے انسپکٹر جنرل کے دفتر کے قیام کے منصوبے شامل ہیں۔

ان چار منصوبوں میں سے دو منصوبے ملک بھر میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے لیے نہایت اہم ہیں اور ان چار منصوبوں کے ختم ہونے سے تقریبا 100 کے قریب ملازمین بے روزگار ہو جائیں گے۔

ان تمام منصوبوں میں سب سے اہم منصوبہ وفاقی ترقیاتی منصوبوں کی مانیٹرنگ ہے۔ اس منصوبے کا مقصد ملک بھر میں جاری تمام وفاقی ترقیاتی منصوبوں کی مانیٹرنگ کرنا ہے۔ اگر کوئی بھی منصوبہ جیسا کہ اسلام آباد میٹرو بس کا منصوبہ اپنے طے شدہ دورانیے میں مکمل نہیں ہو رہا، یا منصوبے میں مالی بے قاعدگیاں ہیں تو ان سب کی نشاندہی وزارت منصوبہ بندی کے اس پراجیکٹ کے مانیٹرنگ افسر کرتے ہیں۔ ان افسران کی بنائی گئی مانیٹرنگ رپورٹس متعلقہ وزارتوں اور وزیراعظم آفس تک بھجوائی جاتی ہیں تا کہ منصوبوں کی تکمیل بروقت اور طے کردہ بجٹ میں ہو سکے۔ اس منصوبے کے ختم ہونے سے حکومت کے پاس ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کرنے کا نظام موجود نہیں رہے گا۔

اس منصوبے پر پچھلے 13 برس میں 42 کروڑ روپے سے زائد سرکاری رقم لگ چکی ہے۔ اس منصوبے کی اہمیت کو جانتے ہوئے وزارت منصوبہ بندی ماضی میں اس منصوبے کی اسامیوں کو مستقل کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے اجازت بھی لے چکی ہے۔

اس کے علاوہ اس منصوبے کا خاصہ ایک کمپیوٹرائزڈ سسٹم ہے جس کے ذریعے پاکستان میں زیر تکمیل تمام وفاقی منصوبوں کی تفصیلات ایک کلک کی دوری پر سرکاری ملازمین کے پاس تھیں۔ اس سسٹم کا نام پراجیکٹ مانیٹرنگ اینڈ ایویلوایشن سسٹم رکھا گیا تھا جس کی وجہ سے ملک بھر میں جاری منصوبوں کے پراجیکٹ ڈائریکٹر دارالحکومت آئے بغیر اپنے شہر میں بیٹھ کر اپنے منصوبے کے سالانہ مالیاتی بجٹ منظور کروا سکتے تھے، جس سے سرکاری خزانے کی بچت بھی ہوتی تھی اور جس کام میں مہینے لگنا ہوتے وہ چند دنوں اور ہفتوں میں ہو جاتا تھا۔ اس منصوبے کے ختم ہونے سے اس سسٹم کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشانات کھڑے ہو گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس سسٹم کے تحت سیٹلائٹ کے ذریعے انفراسٹرکچر منصوبوں کی نگرانی کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے۔

2006 میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں بننے والے اس منصوبے (وفاقی ترقیاتی منصوبوں کی مانیٹرنگ) پر بعد میں آنے والی پیپلز پارٹی اور ن لیگ حکومتوں کے دور میں سوچ بچار ہوتی رہی کہ اس منصوبے اور اس کے تحت کام کرنے والے ملازمین کو مستقل کر دیا جائے کیوں کہ اس منصوبے کا کام وزارت کے بنیادی مینڈیٹ میں سے ہے۔ مگر مختلف وجوہات کی بنیاد پر اس منصوبے کو مستقل نہ کیا جا سکا۔ موجودہ دور حکومت میں اس منصوبے کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ 22 اگست 2019 کو ہونے والی وزارتی میٹنگ میں شرکا کو بتایا گیا تھا کہ اس منصوبے کی جگہ نئے منصوبے کو لایا جائے گا۔

ایکسپریس ٹریبیون سے وابستہ معاشی امور اور وزارت منصوبہ بندی پر نظر رکھنے والے صحافی شہباز رانا سے انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ان منصوبوں کو بند کرنا ایک اچھا قدم ہے کیوں کہ یہ منصوبے وفاقی ترقیاتی بجٹ سے نہیں بلکہ جاری اخراجات سے کیے جانے چاہیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزارت کا کام منصوبوں کی توثیق کرنا ہے نہ کہ خود منصوبے چلانا۔  

وزارت منصوبہ بندی کا موقف جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی سیکریٹری منصوبہ بندی ظفر حسن سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ منصوبوں کو ختم نہیں کیا جا رہا بلکہ کچھ منصوبوں کا انضمام کیا جا رہا ہے۔ انضمام کی وجہ سے ملازمتوں پر اثر پڑنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہر منصوبے کی اپنی مدت ہوتی ہے اور نئے منصوبے میں موجودہ ملازمین کے لیے بھی موقع ہو گا کہ وہ ملازمت کے لیے درخواست دے سکیں۔

پراجیکٹ مانیٹرنگ اینڈ ایویلوایشن سسٹم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ سسٹم اب پرانا ہو چکا ہے اور نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے سیٹلائیٹ مانیٹرنگ بھی کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ نئے منصوبے کی توثیق جلد ہی کر دی جائے گی۔

انڈپینڈنٹ اردو نے متاثرہ ملازمین سے جب رابطہ کیا تو ایک ملازم نے نام  ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے 14 سال اس نظام کو بنانے میں لگا دیے ہیں اور اب انہیں نوکری سے برخواست کیا جا رہا ہے۔ جب انہیں کہا گیا کہ وفاقی سیکریٹری کے مطابق نئی بھرتیوں میں انہیں بھی موقع ملے گا تو ان کا کہنا تھا انہوں نے اپنی زندگی اس منصوبے کو دی ہے اور نئی بھرتی کے لیے شرائط کے مطابق وہ ملازمت کے لیے زائد از عمر ہو چکے ہوں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت