فضائی آلودگی حمل گرنے کی وجہ بن سکتی ہے: تحقیق

یہ تحقیق انسانی جسم پر فضائی آلودگی کے منفی اثرات اور بچوں کو ان کی پیدائش سے پہلے ہونے والے نقصانات پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس تحقیق میں خاموش یا علم میں نہ آنے والے حمل کے گرنے کی وجوہات تلاش کی گئیں ہیں۔

تحقیق کے مطابق حمل کے دوران فضائی آلودگی سے متاثر ہونے والی خواتین کے جنین میں سیاہ کاربن کے ذرات پائے گئے تھے۔(پکسابے)

حال ہی میں سامنے آنے والی ایک تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی حاملہ خواتین میں حمل گرنے کے خطرے میں پچاس فیصد تک کے اضافے کا فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے۔

چین کے دارالحکومت بیجنگ میں تحقیق کاروں نے حمل ضائع ہونے اور فضائی آلودگی کا باہمی تعلق تلاش کرنے کی کوشش کی۔

نیچر سسٹینبلٹی نامی جرنل میں شائع ہونے والے ٹیم کے تجزیے میں بیجنگ میں رہنے والی تقریبا ڈھائی لاکھ حاملہ خواتین کا دوران حمل مشاہدہ کیا گیا۔ یہ خواتین 2009 سے 2017 تک بیجنگ میں رہائش پذیر تھیں۔

محققین نے خواتین کی معلومات میں ان کے فضائی آلودگی سے متاثر ہونے کے امکانات کا موازنہ کیا۔ آلودگی کی ان اقسام میں سلفر ڈائی آکسائڈ اور کاربن مونو آکسائڈ بھی شامل ہیں۔

سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق ہوا میں ایک کیوبک میٹر میں سلفر ڈائی آکسائڈ کی 10 مائیکروگرام مقدار جو بجلی گھروں یا گاڑیوں سے خارج ہوتی ہے حمل گرنے کے امکانات میں 41 فیصد اضافہ کر سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محققین نے زہریلے کیمیکلز مثلا تیل کے دھویں کو بھی حمل ضائع ہونے کی خاموش وجہ بتایا ہے۔ ایسی صورت میں حمل گرنے کا سامنا کرنے والی خاتون میں فوری طور پر حمل گرنے کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

بیجنگ کی نورمل یونیورسٹی کے پروفیسر لیکیانگ زینگ جنہوں نے اس تحقیق میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ ’تحقیق میں حمل سے پہلے کیے جانے والے حفاظتی اقدامات اور حمل کے نقصان دہ نتائج کو روکنے پر توجہ دی گئی ہے۔

’ہماری تحقیق نے ہمیں فضائی آلودگی اور حمل کے تعلق کے نتائج سمجھنے میں مدد دی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ:’ حاملہ خواتین یا وہ جو حاملہ ہونا چاہتی ہیں خود کو فضائی آلودگی سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں جو صرف ان کے لیے نہیں بلکہ جنین کے لیے بھی ضروری ہے۔‘

پروفیسر زینگ کے مطابق آلودگی اور جنین پر اس کے براہ راست اثرات پر بھی تحقیق کی ضرورت ہے۔

رائل کالج آف اوبسٹیٹریشنز اینڈ گائناکالوجسٹ کے ترجمان اور کنسلٹنٹ ڈاکٹر پیٹرک اوبرین کا کہنا ہے کہ:’یہ تحقیق انسانی جسم پر فضائی آلودگی کے منفی اثرات اور بچوں کو ان کی پیدائش سے پہلے ہونے والے نقصانات پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس تحقیق میں خاموش یا علم میں نہ آنے والے حمل کے گرنے کی وجوہات تلاش کی گئیں ہیں۔ مجموعی طور پر6.8 فیصد خواتین اس تجربے سے گزرتی ہیں اور اگر وہ زیادہ آلودہ علاقوں میں رہتی ہیں تو ایسا ہونے کے امکانات اور بڑھ جاتے ہیں۔ روز مرہ زندگی میں فضائی آلودگی کی اتنی مقدار سے بچ پانا ناممکن ہے اس پیدائش سے پہلے بچوں کو اس سے بچانے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‘

ڈاکٹر اوبرین کا مزید کہنا تھا کہ آر سی او جی حاملہ خواتین کو یہ نصیحت کرتا ہے وہ ’ فضائی آلودگی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں‘ اور اپنی زندگی میں تبدیلی لائیں جیسے کہ سگریٹ پھونکنا چھوڑ دیں۔

مسکیرج ایسوسی ایشن کے نیشنل ڈائریکٹر رتھ بینڈر اتیک کا کہنا ہے کہ کئی دیگر عوامل جیسے کہ غربت، خوراک کی کمی کو بھی خواتین پر فضائی آلودگی کے اثرات کے ساتھ دیکھنا ہو گا۔

بینڈر اتیک کا کہنا ہے کہ’آپ ایسا اندرون شہر کے آلودہ علاقوں میں تو امید کر سکتے ہیں اور یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ کیا وہاں بھی ایسے اثرات ہی مرتب ہو رہے ہیں اور کیا وہاں اس کی تعداد زیادہ ہو رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود حاملہ خواتین کو ایسے علاقوں میں ماسک پہننے کی نصیحت کرنا مناسب ہے گو کہ کئی تحقیق کار اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے یا نہیں۔‘

بینڈر کے مطابق آلودہ علاقوں میں رہنے والے لوگ معاشی حالات کے باعث ’ کم آلودہ علاقوں کو منتقل ہونے جیسی تبدیلی‘ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

ستمبر میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق حمل کے دوران فضائی آلودگی سے متاثر ہونے والی خواتین کے جنین میں سیاہ کاربن کے ذرات پائے گئے تھے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات