ایف اے ٹی ایف: پاکستان کی قسمت کا فیصلہ، کیا نتائج ہوسکتے ہیں؟

فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں شامل کیے جانے کے خطرات کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کی پبلک پالیسی کے ماہر حسان خاور سے خصوصی گفتگو

پاکستان کے سر پر فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں شامل کیے جانے کے خطرات منڈلا رہے ہیں، جس کا فیصلہ آج پیرس میں ہونے والے اجلاس میں کیا جائے گا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے پبلک پالیسی کے ماہر حسان خاور سے بات چیت کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو کن نکات پر عملدرآمد کا ٹاسک دیا تھا، پاکستان نے ان پر کتنا عمل کیا اور اگر خدانخواستہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کردیا گیا تو اس کے کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو: بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو عمل درآمد کے لیے کتنے نکات پر مشتمل ٹاسک دیا تھا؟

حسان خاور: ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جاری کی گئی دوطرفہ جائزے کی رپورٹ میں گذشتہ اکتوبر تک پاکستان کی جانب سے پیش رفت کو مختصر طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 40 نکات پر کام کرنا تھا۔رپورٹ میں ایک فہرست دی گئی ہے جس کے مطابق پاکستان نے کچھ نکات پر مکمل،کچھ پر جزوی اور کچھ پر کوئی کام نہیں کیا۔ مؤثر عمل درآمد کے حوالے سے 10 نکات دیئے گئے تھے جن میں سے ایک پر پاکستان کی کارکردگی اچھی ہے جبکہ باقی نو پر کام ہو رہا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو: دہشت گردوں کو فنڈز کی فراہمی اور منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے کون سا نکتہ سب سے اہم ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حسان خاور: جب ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کا نظام دیکھنا شروع کیا تو اس کے کچھ معاملات پر انہوں نے بار بار بات کی۔ ان میں سے کچھ تو صرف ایک بار کے معاملات تھے اور کچھ نظام کے بارے میں تھے۔ ایک بار کے ایشوز میں ایف اے ٹی ایف نے کہا کہ کچھ ادارے ایسے ہیں جن پر پابندی لگانی ہوگی اور لوگوں کے خلاف کارروائی کرنی ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک ڈیڑھ سال میں پاکستان میں کارروائیاں ہوئیں، اداروں کو بند کیا گیا اور لوگوں کو جیل میں ڈالا گیا۔ انسداد دہشت گردی کے ادارے نے بہت سے کیسوں پر کام کیا۔ دوسری جانب نظام کے مسائل ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے ہمیں دو مختلف باتیں سمجھنا ہوں گی۔ ایک انسداد منی لانڈرنگ اور دوسرا دہشت گردوں کو فنڈز کی فراہمی روکنے کا قانون ہے۔ ان معاملات کو عملی شکل دینا فنانشل مانیٹری یونٹ (ایف ایم یو) کی ذمہ داری ہے۔ یہ ادارہ سٹیٹ بینک کا حصہ ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی پچھلے سال کی رپورٹ پر نظر ڈالی جائے تو اس میں کہا گیا ہے کہ ایف ایم یو کے کام کی صلاحیت بہت کمزور ہے۔ بینکوں، مالیاتی اداروں اور دیگر متعلقہ محکموں سے معلومات اکٹھی کرکے مشکوک ٹرانزیکشنز کی نشاندہی کرکے ڈیٹا اکٹھا کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اس یونٹ کی ذمہ داری ہے۔ ان اداروں کا کام ہے کہ وہ ان معلومات کی بنیاد پر تحقیقات کرکے اثاثے منجمد کریں اور ملوث افراد کے خلاف تحقیقات کرکے انہیں سزا دلوائیں۔ یہ پوری ایک چین (Chain) ہے۔ ایف اے ایف ٹی ایف کا خیال ہے کہ پاکستان میں یہ چین کہیں نہ کہیں ٹوٹی ہوئی ہے۔ ایف اے ایف ٹی ایف پاکستانی قوانین سے مطمئن ہیں۔ پاکستان قانون سازی میں بہت آگے ہے لیکن بات یہ ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟ قانون کے نفاذ پر ایف اے ٹی ایف کے تحفظات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ کے دو ڈھائی ہزار کیس رجسٹر کیے بھی ہیں لیکن سزا صرف ایک شخص کو ہوئی اور وہ سیلف لانڈرنگ کے کیس میں۔ یعنی یہ کوئی بڑا کیس نہیں ہے۔ ایف اے ٹی ایف کا مؤقف ہے کہ پاکستان میں منی لانڈرنگ جتنے بڑے مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے کیسوں اور ان میں سزا میں مطابقت نہیں ہے۔

دوسرا ایف اے ٹی ایف کا کہنا ہے کہ بینک منی لانڈرنگ پر تو ٹھیک کام کر رہے ہیں لیکن وہ دہشت گردوں کو فنڈز کی فراہمی کے معاملے کو اچھی طرح نہیں سمجھتے۔ جب آپ بینکوں سے نیچے آتے ہیں تو وہاں کافی زیادہ خلا ہے۔ بینکوں کے علاوہ مالیاتی ادارے جن میں انشورنس کمپنیاں اور مضاربہ کمپنیاں شامل ہیں، ان کے اپنے مسئلے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: ایف اے ٹی ایف بلیک لسٹ: کیا پاکستان اکتوبر میں خود کو بچا پائے گا؟

سونے کے تاجراور پراپرٹی کا شعبہ منی لانڈرنگ کی جنت ہے۔ ان شعبوں کو وکلا کی مدد حاصل ہے۔ ایف اے ٹی ایف کا کہنا ہے کہ ان شعبوں پر حکومت کا کوئی انتظامی کنٹرول نہیں ہے۔

آخر میں ایف اے ٹی ایف کا ادارہ کہتا ہے کہ پاکستان میں سرمایے کی نقل وحمل یعنی حوالہ ہنڈی وغیرہ پر بھی حکومتی کنٹرول نہیں ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو: ایف اے ٹی ایف نے سرحد پار سرمائے کی نقل و حمل کی بات کی ہے کہ اس پر حکومتی سطح پر نگرانی کا کوئی مؤثر نظام نہیں ہے۔ اس حوالے سے پاکستان نے جو اعداد و شمار ایف اے ٹی ایف کو دیئے ان پر کارروائی ممکن نہیں ہے۔ کیا یہ نظام کی خامی ہے یا جان بوجھ کر ایسا کیا گیا؟

حسان خاور: یہ معاملہ کسی حد تک نظام کا اور کسی حد تک ہمارے رویے کا ہے۔ جب منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو فنڈز کی ترسیل روکنے کے لیے کام کیا جاتا ہے تو اس کے لیے خطرے کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ پاکستان نے ایسا کیا لیکن ایف اے ٹی ایف خوش نہیں تھی۔ کہا گیا کہ پاکستان نے اپنے آپ کو درمیانی کیٹیگری میں رکھا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو رپورٹ ہمیں بھیجی گئی نجی شعبے کو بھی دی جانی چاہیے تھی تاکہ وہ خطرات کو سمجھ  کر ان سے نمٹنے کے طریقے تلاش کرتا لیکن حکومت نے یہ رپورٹ نجی شعبے کو نہیں دی۔ دوسرا ایف ایم یو کی استعداد کار پر اعتراض اٹھایا گیا اور کہا گیا کہ اس یونٹ میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ٹرانس ایکشن کی نگرانی کرکے اس میں سراخ تلاش کرے اور جب تک ایسا نہیں ہوتا بات نہیں بنتی۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں جن کیسوں پر تحقیقات کی گئیں ان کا ذریعہ ایف ایم یو نہیں تھا بلکہ کہیں اور سے معلومات ملیں۔ پاکستان میں مالیاتی معاملات میں انٹیلی جنس کا نظام چل نہیں پا رہا۔

انڈپینڈنٹ اردو: رپورٹ دیکھنے کے بعد آپ کیا کہیں گے کہ کتنا خطرہ ہے؟ کیا پاکستان گرے سے بلیک لسٹ میں جا سکتا ہے؟

حسان خاور: دیکھیے کچھ اس معاملے میں سیاست اور کچھ میرٹ ہے۔ میرٹ کی بات کریں تو بلیک لسٹ میں اُن ملکوں کو ڈالا جاتا ہے جو تعاون کے لیے تیار نہ ہوں۔ ایک ملک جو ایکشن پلان پر ایف اے ٹی ایف کے ساتھ متفق ہے، اسے تعاون نہ کرنے والا تو بالکل نہیں کہیں گے۔ ایسا ہے تو پھر میرٹ کے مطابق تو پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان گرے لسٹ میں شامل رہتا ہے یا نہیں؟ تو میرے خیال میں جس رپورٹ کی ہم بات کر رہے ہیں اس میں اکتوبر 2018 تک ہونے والی پیش رفت کا ذکر ہے۔ پچھلے ایک سال میں پاکستان نے کافی کارروائیاں کی ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان نے پیرس میں ہونے والے اجلاس میں اپنا کیس بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا ہوگا اور بتایا ہو گا کہ کافی پیش رفت ہو چکی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ایسا لگتا ہے کہ ابھی ہم وہاں نہیں پہنچے جہاں وہ چاہ رہے ہیں۔ یہ غلط گمان ہے کہ پاکستان کو مزید کچھ عرصہ گرے لسٹ پر رکھا جائے گا۔ تاہم جو بھی ہے فیصلہ جمعے کو سنایا جائے گا۔ سیاست کے حوالے سے بتا دوں کہ کسی ملک کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کے لیے قرارداد کو ویٹو کرنے کے لیے تین ملکوں کے ووٹوں کی ضرورت ہے۔ چین، ترکی اور ملائیشیا پاکستان کے ساتھ ہے۔ امریکہ کی حمایت نہ بھی ہو تو مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پاس قرارداد کو ویٹو کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو: پاکستان کے بلیک لسٹ میں شامل ہونے سے کیا ہوگا؟ کیا سی پیک منصوبے متاثر ہوسکتے ہیں؟

حسان خاور: اس بات کا امکان بہت کم ہے لیکن اگر ایسا ہوگیا تو یہ پاکستان کے لیے بڑی بدقسمتی کی بات ہوگی۔ پاکستان مالی بحران کا شکار ہے اور ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام چل رہا ہے لیکن بلیک لسٹ میں جانے کے بعد شاید آئی ایم ایف کا پروگرام بند ہو جائے۔ بین الاقوامی ادارے پاکستان کے ساتھ لین دین سے گھبرائیں گے۔ لین دین پر اٹھنے والے اخراجات میں اضافہ ہو جائے گا۔ کاروباری تعلقات منقطع ہو جائیں گے۔ جہاں تک سی پیک کا تعلق ہے تو چین پاکستان کے ساتھ کام جاری رکھ سکتا ہے لیکن پابندیاں عائد کیے جانے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ چین تو بجلی منصوبوں میں سرمایہ لگائے گا لیکن پاکستان کے لیے ان منصوبوں کے لیے فنڈز حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ سٹاک مارکیٹ، عام مارکیٹ اور براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری متاثر ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے: آئی ایم ایف کا وفد پاکستان میں، ماہرین اقتصادیات کیا کہتے ہیں؟

انڈپینڈنٹ اردو: بھارت، پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کروانے کے درپے ہے۔ وہ کس حد تک کامیاب ہو سکتا ہے؟

حسان خاور: بدقسمتی سے ایف اے ٹی ایف کے ایشیا پیسیفک گروپ میں شریک چیئرپرسن کا عہدہ بھارت کے پاس ہے۔ اس کا پاکستان کو نقصان بھی ہوا ہے۔ بھارتی اخبارات مسلسل شور کر رہے ہیں کہ پاکستان بلیک لسٹ ہونے والا ہے لیکن میرے خیال میں بھارت کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی محاذ پر کچھ دوست ملک ہمارے ساتھ ہیں۔ میرٹ پر بھی کام ہو رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان بہت سنجیدہ ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو: کیا ہو سکتا ہے کہ جنوری تک مہلت ملنے کی صورت میں پاکستان ایف اے ٹی ایف کی باقی شرائط بھی پوری کردے؟

حسان خاور: کچھ تو ون ٹائم ایشوز ہیں۔ جب بات باہر آئے گی تو پتہ چلے گا کہ ایف اے ٹی ایف نے کس کس بات سے اتفاق نہیں کیا۔ اگر مسئلہ قانون کے نفاذ کا ہے یعنی ابھی کچھ ادارے ہیں جن پر پابندی لگنی باقی ہے یا کچھ لوگ ہیں جن کے بارے میں وہ چاہتے ہیں کہ انہیں جیل میں بند کیا جائے۔ یہ وہ معاملات ہیں جن میں کم وقت میں عملی قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔ مسئلہ نظام کے مسائل کا ہے جو پچھلے 70 سال میں ٹھیک نہیں ہوسکے۔ انہیں تین مہینے میں ٹھیک کرنا مشکل ہے۔ اس بات کا احساس ایف اے ٹی ایف کو بھی ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ جنوری میں ہونے والے اجلاس میں اس حوالے سے دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ میرے خیال میں نظام کے مسائل حل کرنے کے لیے ہمیں ایک سال چاہیے لیکن اس کے لیے سیاسی عزم اور وسائل کا ہونا شرط ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت