کشمیر کے بارے میں آخر سچ کون بول رہا ہے؟

پاکستان اور بھارت دونوں کشیدگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ دونوں معلومات کے خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اپنی مرضی کے بیانیے سے پُر کرنے میں مصروف ہیں، امریکی محقق جین رائزک

درست خبریں نہ  ملنے کی وجہ سے کشمیر کے بارے میں غلط معلومات انٹرنیٹ پر عام ہو چکی ہیں۔(اے ایف پی)

نئی دہلی انتظامیہ کی جانب سے اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں مواصلاتی نظام کی بندش نے بھارت اور پاکستان کے درمیان جعلی خبروں کی جنگ کو پوری طرح ایندھن فراہم کیا ہے اور دونوں ملکوں نے معلومات کے خلا کو پُر کرنے اور رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے غلط معلومات کا طوفان برپا کر دیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بھارت نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خود مختار حیثیت پانچ اگست کو ختم کرنے کے بعد وہاں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند کر دی تھی۔

بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی خودمختاری کے خاتمے سے ہمسایہ ملک پاکستان میں غم و غصہ پھیل گیا۔ پاکستان بھی مسلم اکثریتی پورے کشمیر کی ملکیت کا دعوے دار ہے۔

اگرچہ بھارت نے کشمیر میں لینڈ لائن اور موبائل فون سروس بحال کر دی ہے لیکن انٹرنیٹ اب بھی بند ہے جب کہ غیرملکی صحافیوں کو علاقے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

درست خبریں نہ ملنے کی وجہ سے کشمیر کے بارے میں غلط معلومات انٹرنیٹ پر عام ہو چکی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی میں تحقیقی موضوعات پر کام کرنے والے جین رائزک کے مطابق: ’پاکستان اور بھارت دونوں کشیدگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ دونوں معلومات کے خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اپنی مرضی کے بیانیے سے پُر کرنے میں مصروف ہیں۔ یہی بیانیہ عالمی سطح پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’پاکستان بھارت کو اس بات کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر اس کے شہریوں کے لیے کشمیر میں سب اچھا کے بیانیے کو فروغ دے۔ اسی طرح بھارت کے لیے بھی یہ قابل قبول نہیں ہے کہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور غیریقینی صورت حال کے بارے میں اس کے شہریوں کو پتہ چلے۔‘

غلط معلومات پھیلانے کے عمل میں غزہ کے علاقے کی پرانی تصاویر سے لے کر ’نئے کشمیر‘ کی پرانی تصاویر تک شامل ہیں جن میں بچوں کو خوش و خرم دیکھا جاسکتا ہے۔ غزہ کی پرانی تصاویر کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ کس طرح بھارت نے کشمیر کو جہنم میں تبدیل کر دیا ہے۔

ان تصاویر کی نشاندہی اے ایف پی کے حقائق کی تصدیق کرنے والے یونٹ نے کی ہے، جس نے بحران شروع ہونے کے بعد پاکستان اور بھارت کی جانب سے کشمیر کے بارے میں متعدد غلط معلومات کے بارے میں بتایا ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ، جن کے ٹوئٹر اور فیس بک پر لاکھوں فالورز ہیں، نے کشمیر کی تبدیل شدہ یا غیرحقیقی تصاویر یا ویڈیوز شیئر کی ہیں۔ اس اقدام کا مقصد وادی کشمیر میں پرمسرت زندگی دکھانا ہے۔

جعلی خبروں کی جنگ میں مسلمانوں کے بڑے مذہبی تہوار عیدالاضحیٰ سے متعلق خبریں بھی شامل تھیں۔ عید سے تقریباً ایک ہفتہ قبل بھارت نے کشمیر کی خودمختاری ختم کر دی تھی۔ بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں اضافی بھارتی فوجیوں نے سڑکوں پر مارچ شروع کر دیا جب کہ شہر کی مرکزی مسجد بند کر دی گئی لیکن آن لائن ایسی تصاویر پھیلائی گئیں جن میں لوگوں کو مسجد میں نماز پڑھتے دکھایا گیا تھا۔

ڈیجیٹل محاصرہ

اس دوران کشمیر کے بارے میں گمراہ کن پوسٹوں میں پاکستان میں لاکھوں بار غیرمتعلقہ ویڈیوز دیکھی گئیں۔ یہ ویڈیوز بڑے سیاستدانوں اور صحافیوں نے پوسٹ کی تھیں۔

ان ویڈیوز میں 2016 کی وہ ویڈیو بھی شامل تھی جس میں سری نگر میں ایک تدفین کے موقع پر لوگوں کا بڑا ہجوم دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیو وفاقی وزیر علی حیدر زیدی نے ٹوئٹر پر پوسٹ کی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کشمیر میں بڑی تعداد میں لوگ علاقے کی خود مختاری ختم کرنے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

پاکستانی صحافی حامد میر، جن کے ٹوئٹر پر 50 لاکھ سے زیادہ فالورز ہیں، انہوں نے بھی ایک ویڈیو شیئر کی اور دعویٰ کیا کہ بھارتی فوج کشمیریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے لیکن یہ فوٹیج 2018 کی تھی۔ ٹوئٹر پر حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والوں کے کہنے پر انہوں نے یہ ویڈیو ہٹا دی۔

بھارتی شہر ممبئی میں مقیم تحقیقاتی صحافت کرنے والے صحافی رعنا ایوب کی نظر میں بھارتی سوشل میڈیا پر غلط معلومات کی موجودگی حکام کی اُن سوچی سمجھی کوششوں کا حصہ ہے جن کا مقصد کشمیر کی حقیقی صورت حال کو چھپانا ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’بھارتی حکومت کشمیر کے حالات کا جعلی معلومات کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے۔ گمراہ کن تصاویر میں سب اچھا دکھایا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ درست رپورٹنگ کرتے ہیں تو بھارتی حکومت ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ان پر ’جعلی خبریں‘ پھیلانے کا الزام لگاتی ہے۔

اس ضمن میں انہوں نے بھارتی حکام کا حوالہ دیا جو مسلسل انکار کرتے ہیں کہ سری نگر میں کوئی بڑا مظاہرہ یا تشدد کا کوئی واقعہ ہوا ہے۔ بھارتی حکام برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اور دوسرے عالمی خبر رساں اداروں کی ویڈیوز کو غلط کہہ کر مسترد کر چکے ہیں۔

تاہم بالآخر حکام نے تسلیم کر لیا کہ سری نگر میں بڑے پیمانے پر بد امنی ہے۔

اسلام آباد میں ’بائیٹ فار آل‘ کے نام سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ ڈیجیٹل حقوق کے کارکن شہزاد احمد کے مطابق پاکستان میں بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے حوالے سے غلط معلومات کی جزوی وجہ، مسئلہ کشمیر کی طرف توجہ مبذول کرانے کی بے موقع خواہش کی راہ میں حائل عملی مجبوریاں ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’کشمیر کے حالات کو اجاگر کرنے کے لیے لوگ پرانی تصاویر اور ویڈیوز استعمال کر رہے ہیں لیکن اس حکمت عملی کا ردعمل آ رہا ہے۔‘

شہزاد احمد کے مطابق: ’جعلی خبروں سے کوئی مدد نہیں مل رہی بلکہ الٹا ان کی وجہ سے کشمیر میں حقیقی انسانی مشکلات پر پردہ پڑ گیا ہے۔‘

امریکہ کی سٹین فورڈ یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی ڈیجیٹل پالیسی سے وابستہ سکالر جین رائزک نے حال ہی میں کہا ہے کہ جعلی خبروں کی جنگ میں کوئی نہیں جیت پاتا۔

انہوں نے کہ: ’ہم ٹھیک سے نہیں جانتے کہ اس ’ڈیجیٹل محاصرے‘ کے نتیجے کے طور پر معلومات کے پھیلاؤ میں کس طرح تبدیلی آئی ہے لیکن اس نے افواہوں کی تصدیق اور حقیقت تک پہنچنے کے عمل کو مشکل تر بنا دیا ہے اور مجموعی طور پر صورت حال پر قابو پانا بھی مشکل تر ہوگیا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا