کُرد جنگجوؤں نے شمالی شام سے انخلا نہ کیا تو ’سر کچل‘ دیں گے: اردوغان

طیب اردوغان نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ معاہدے کے تحت کُرد ملیشیا کو شمالی شام سے انخلا کرنا ہے اور اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو ترکی ان کے خلاف فوجی کارروائی وہیں سے دوبارہ شروع کر دے گا جہاں اُس نے اسے چھوڑا تھا۔

(اے ایف پی)

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے خبردار کیا ہے کہ اگر کُرد جنگجوؤں نے شمالی شام کے علاقے خالی نہ کیے تو وہ ان کا ’سر کچل‘ دیں گے۔

انقرہ کی جانب سے یہ سخت بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ترک صدر نے گذشتہ جمعرات کو امریکی نائب صدر مائیک پینس کے ساتھ ملاقات میں شام میں جاری حملوں کو پانچ روز تک روکنے پر اتفاق کیا تھا تاکہ کُرد جنگجو ترک سرحد کے قریب ’سیف زون‘ منتقل ہو سکیں۔

یہ کمزور معاہدہ ہفتے کے دن تک قائم رہا، جب چند ہی ترک فوجی گاڑیوں نے شامی سرحد عبور کی جبکہ ترک وزارت دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ ’گذشتہ 36 گھنٹوں کے دوران کُردوں کی جانب سے 14 اشتعال انگیز حملے کیے گئے تاہم وہ واشنگٹن کے ساتھ معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے تحمل سے کام لے رہے ہیں۔‘

ترک صدر اردوغان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ معاہدے کے تحت کُرد ملیشیا کو شمالی شام سے انخلا کرنا ہے اور اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو ترکی ان کے خلاف فوجی کارروائی وہیں سے دوبارہ شروع کر دے گا جہاں اُس نے اسے چھوڑا تھا۔

وسطی ترک صوبے میں پرچم لہراتے ہوئے اپنے ہزاروں حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر اردوغان نے کہا: ’اگر یہ معاہدہ قائم رہتا ہے تو وہ اسے جاری رکھیں گے اور اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو ہم (فائر بندی کے 120 گھنٹے ختم ہونے کے بعد ہی) دہشت گردوں کے سروں کو کچل ڈالیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر ہمارے ساتھ کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے تو ہم پہلے کی طرح انتظار نہیں کریں گے اور طے شدہ وقت ختم ہوتے ہی ہم کارروائی جاری رکھیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انقرہ جنوب مشرقی ترکی میں کرد باغیوں سے تعلق کی وجہ سے کردوں کی زیرِ قیادت سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے۔

جمعے کو کرد ملیشیا نے ترکی پر شمال مشرق سرحدی شہر راس العین میں گولہ باری کرکے پانچ روزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا۔

ایک سینیئر ترک عہدیدار نے ان الزامات کو انقرہ اور واشنگٹن کے مابین معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ترکی اس معاہدے پر پوری طرح عمل درآمد کر رہا ہے۔

عہدیدار نے مزید کہا: ’ترکی اس معاہدے پر سو فیصد عمل پیرا ہے۔ ہم نے مذاکرات کی میز پر ہر وہ چیز حاصل کرلی جس کی ہمیں ضرورت تھی۔ یہ سوچنا بھی عجیب ہو گا کہ ہم کسی ایسے معاہدے کی خلاف ورزی کریں گے جو ہماری منشا کے مطابق ہو۔‘

ترکی کے ایک اور سینیئر عہدے دار نے جمعے کو کہا تھا کہ شام میں ترکی کی فوجی کارروائی کو معطل کرنے کا معاہدہ اردوغان کے اس مطالبے پر منحصر ہے جس میں کردوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ شمالی شام سے نکل جائیں۔

اس معاہدے کا مقصد ایک انسانی بحران کو روکنا ہے جس نے خطے میں دو لاکھ شہریوں کو بے گھر کردیا ہے جبکہ ترکی کے حملے سے کردوں کی جیلوں میں قید داعش کے جنگجوؤں کے فرار ہونے کا خدشہ ہے۔

منصوبہ بندی کے تحت سیف زون ترکی کی سرحد سے 32 کلومیٹر دور شام کے علاقے میں قائم کیا جائے گا۔  صدر اردوغان نے جمعے کو کہا تھا کہ ترک فورسز سرحد کے ساتھ مغرب سے مشرق تک تقریباً 440 کلومیٹر تک نگرانی کریں گی حالانکہ شام کے لیے خصوصی امریکی ایلچی نے کہا ہے کہ اس معاہدے میں وہ چھوٹے علاقے بھی شامل ہیں جہاں ترک افواج اور ان کے شامی باغی اتحادی لڑ رہے ہیں۔

ترک صدر نے یہ بھی کہا کہ ترکی شمال مشرقی شام میں ایک درجن مشاہداتی چوکیاں قائم کرے گا اور وہ روسی صدر ولادی میر پوتن کو آئندہ ہفتے ’سیف زون‘ کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں اعتماد میں لیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا