آزادی مارچ: مذہبی اور لبرل حلقے، دونوں کے ہی تحفظات

مذہبی جماعتوں اور مدارس کا آزادی مارچ میں شمولیت پر اختلاف ہے تو دوسری جانب روشن خیال دانش ور بھی مولانا فضل الرحمان کے سامنے اپنے تحفظات اور مطالبات رکھ رہے ہیں۔

آزادی مارچ کے موقعے پر  مولانا فضل الرحمان کو  مذہبی جماعتوں کی مکمل حمایت نظر نہیں آ رہی(اے ایف پی)

پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ان دنوں مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور سیاسی جوڑ توڑ کے ساتھ ’مذہبی کارڈ‘ کو بھی خصوصی اہمیت حاصل ہوچکی ہے۔

مولانافضل الرحمن کافی جدو جہد کے بعد مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مارچ میں شرکت تو یقینی بنا چکے ہیں لیکن ان کے لیے ذاتی اثر و رسوخ سے باہرمذہبی حلقوں کو ساتھ لےکر چلنا دشوار ہورہا ہے کیونکہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اپنی حامی سیاسی جماعتوں اور مذہبی رہنماؤں کوحکومت مخالف تحریک میں حصہ لینے سے باز رکھنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔

دوسری جانب جمہوری بالادستی اور روشن خیالی پر یقین رکھنے والے دانش وروں نے بھی مولانا فضل الرحمان کے سامنے اس تحریک کی ممکنہ کامیابی کے بعد کی صورت حال پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے چند سوالات رکھے ہیں۔ 

مذہبی جماعتوں اور مدارس کا اختلاف

جمعیت علمائے اسلام (ف) مذہبی سیاسی جماعتوں میں نمایاں پوزیشن رکھتی ہے۔ یہ جماعت جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر بھی جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں کی نہ صرف اتحادی رہی بلکہ غالب بھی تھی۔

تاہم اب آزادی مارچ کے موقعے پر انہیں مذہبی جماعتوں کی مکمل حمایت نظر نہیں آ رہی کیونکہ اس تحریک میں بیشتر مذہبی جماعتیں اور بعض مدارس شمولیت کو تیار نہیں۔

جماعت اسلامی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات قیصر شریف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کہ جے یو آئی (ف) نے مولانا فضل الرحمان کی جمعےکو لاہور آمد پر سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی لیاقت بلوچ سے ملاقات کے لیے رابطہ کیا تھا لیکن ملاقات نہ ہوسکی۔

قیصر شریف نے کہا جماعت اسلامی مجلس شوریٰ کے فیصلے پر آزادی مارچ میں شریک نہیں ہوگی کیونکہ پارٹی کشمیر سے زیادہ اہم اس وقت کسی ایشو کو نہیں سمجھتی۔

ترجمان تحریکِ لبیک اعجاز اشرفی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ان کی جماعت نے مولانافضل الرحمان کے آزادی مارچ میں شرکت سے متعلق ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا اور نہ ہی خادم رضوی سمیت کسی رہنما نے کوئی کال دی ہے۔’ اس بارے میں مجلس شوری کا جو بھی فیصلہ ہوگا اسی پر عمل کریں گے۔‘

اسی طرح تبلیغی جماعت نے بھی آزادی مارچ میں شمولیت سے معذرت کر لی ہے۔

تبلیغی جماعت کے ذرائع کے مطابق جے یو آئی نے رابطہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ گرفتاریوں سے بچنے کے لیے جے یو آئی (ف) کے پنجاب بھر سے کارکن تبلیغی جماعت کے مرکز رائیونڈ میں جمع ہوں گے ،جہاں سالانہ اجتماع 31اکتوبر کو شروع ہوگا لیکن تبلیغی جماعت کی انتظامیہ نے مرکز کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے منع کردیا ہے۔

وفاقی وزیر نورالحق قادری اور علی زیدی گذشتہ روز ایک ملاقات میں جامعہ بنوریہ کراچی کے سرپرست مفتی نعیم کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

مفتی نعیم نے مدارس کے طلبا کی آزادی مارچ میں شرکت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مارچ میں مدارس کے طلبا کو شریک نہیں ہونا چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر طلبا کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے دیا تو والدین کو کیا پیغام جائے گا؟

لاہور کے بڑے مدارس جامعہ نعیمیہ اور جامعہ اشرفیہ کی انتظامیہ نے بھی مارچ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیاہے۔

روشن خیال دانش وروں اور سول سوسائٹی کے خدشات

سربراہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے جمعے کو ساؤتھ ایشیافری میڈیا ایسوسی ایشن (سافما)کے لاہور مرکز میں سینیئر صحافیوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے ملاقات کی۔

 اس دوران مولانافضل الرحمان کے سامنے حکومت مخالف تحریک کی ممکنہ کامیابی کے بعد کی صورت حال پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔

سیکرٹری جنرل سافما امتیاز عالم نے مولانا فضل الرحمان کے سامنےسوالات اور شرکا کے چھ متفقہ مطالبات رکھے جن سے روشن خیال اور بائیں بازو کے دانش وروں نے بھی اتفاق کیا۔

امتیاز عالم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ’ چونکہ جمعیت علمائے اسلام نے اپنے حلقے کو پھر سے ختمِ نبوت اور شان رسالت کے طے شدہ معاملے پر گرمایا ہےلہذا تشویش ہے کہ آزادی مارچ کے بطن سے کوئی سخت مذہبی انتہاپسندی جنم نہ لے لے۔ ‘

حفظ ماتقدم کے طور پر سول سوسائٹی نے حقوق کے اعلان نامے اور انسانی حقوق کے عالمی اعلان نامے پر جمعیت علمائے اسلام سمیت اے پی سی کی تمام جماعتوں کی توثیق کا مطالبہ کیا ہے۔ 

1۔ عوام کے اقتدارِ اعلیٰ اور اُن کے شہری، انسانی، سیاسی و معاشی حقوق جیسا کہ آئین اور انسانی حقوق (بشمول صحت، تعلیم، روزگار اور اچھی زندگی) کے عالمی اعلان نامے کا تقاضا ہے، کا تحفظ۔ عوام کے حقِ رائے دہی کا احترام و انتظام۔ 

2۔ اختیارات کی آئینی تکون اور ریاست کے اداروں کی آئینی حدود میں رہنے اور پارلیمان کی بالادستی کا اہتمام و انصرام اور صوبائی خودمختاری اور وفاقیت کا تحفظ۔ 

3۔ ریاست اور اس کے اداروں کی جانب سے شہریوں کے حقوق کا احترام اور تمام شہریوں کے بلامذہبی، صنفی، نسلی اور نظریاتی تفریق کے مساوی حقوق کی یقین دہانی۔ بلوچستان اور سابقہ فاٹا میں شہریوں کی شکایات کا ازالہ، حقوق کی بحالی اور تعمیرِنو میں عوام کی شرکت۔ 

4۔ کرپشن کی تمام صورتوں کا بتدریج خاتمہ اور سب کے احتساب کا واحد شفاف ادارہ جو عدلیہ اور پارلیمنٹ کو جواب دہ ہو۔ 

5۔ پاکستانی معیشت کی تشکیلِ نو۔ پائیدار اور شراکت ترقی، قرضے کے پھندے اور دست نگری کا خاتمہ۔ 

6۔ قومی سلامتی کے جنگجویانہ نظریات کی جگہ عوامی سلامتی و خوشحالی اور امن کا نظریہ۔ کشمیریوں و دیگر مظلوم لوگوں کے جمہوری حقِ خودارادیت کے لیے پُرامن جدوجہد۔ ایک ایسے روشن خیال، جمہوری، انسانی اور روادارانہ بیانیے کا فروغ جس سے مذہبی شدت پسندی اور خطے میں محاذآرائی ختم ہو۔ اور ہمسایوں سے تنازعات کا پُرامن حل اور علاقائی شراکتی معاشی ترقی کو بڑھاوا ملے۔

امتیاز عالم کا کہنا تھا سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں حقیقی جمہوری نظام کا قیام موجودہ حکومت کے خاتمے سے بڑا مقصد ہونا چاہیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست