یورپی یونین کا افغان طالبان پر جنگ بندی کے لیے زور

افغانستان کے لیے یورپی یونین کے خصوصی ایلچی رولینڈ کوبیا کے مطابق مذاکرات کی ناکامی کے بعد طالبان کو جنگ بندی کا موقع ہاتھ سے نہیں گنوانا چاہیے کیوں کہ اس سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔

افغان طالبان کے ایک رکن  نومبر 2018  میں روس کے دارالحکومت ماسکو میں ہونے والے مذاکرات میں شریک ہیں۔ (اے ایف پی)

یورپی یونین نے افغانستان میں فوری جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد بھی امن معاہدے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جانا چاہیے۔

یورپی یونین کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر غیر اعلانیہ دورے پر کابل پہنچے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغانستان کے لیے یورپی یونین کے خصوصی ایلچی رولینڈ کوبیا نے کابل میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ بات چیت کی ناکامی کے بعد طالبان کو جنگ بندی کا موقع ہاتھ سے نہیں گنوانا چاہیے کیوں کہ اس سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مذاکرات کی بحالی کے بارے میں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے گذشتہ ماہ ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد اُس وقت طالبان سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جب دونوں فریق مہینوں کی بات چیت کے بعد امن معاہدے کے قریب پہنچ گئے تھے۔

رولینڈ کوبیا نے کہا: ’یہ صحیح لمحہ اور صحیح موقع ہے۔ تشدد میں کمی کرتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھائیں اور ایسے راستے تلاش کریں جس میں جنگ بندی ہوگی۔۔۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم جنگ بندی کے خیال کو کس طرح آگے بڑھا سکتے ہیں۔ آج یہاں ایک موقع موجود ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ یورپی یونین کیسے جنگ بندی میں مدد کر سکتی ہے تو کوبیا نے تجویز پیش کی کہ طالبان مہینوں کے اندر اندر کسی بھی شکل میں اقتدار میں شراکت دار بن سکتے ہیں اور اس کے ساتھ مستقبل میں یورپی بلاک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا کر کسی معاہدے پر پہنچا جا سکتا ہے۔

کوبیا نے کہا: ’جنگ بندی ایک علامت ہوگی اور یہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے خیر سگالی اور اچھی تیاری کی ضمانت ہوگی۔‘

طالبان نے موجودہ حالات میں فوری طور پر جنگ بندی کے امکان کو رد کر دیا ہے تاہم اس جنگجو تنظیم نے گذشتہ برس تین روز کے لیے ہتھیار ڈالے تھے۔

افغانستان اس وقت 28 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے پہلے دور کے بعد بے چینی سے نتائج کے انتظار میں ہے۔

اس دوران افغانستان میں تشدد کی کاروائیاں جاری ہیں۔ جمعے کو صوبہ ننگرہار میں ایک مسجد پر حملے کے نتیجے میں کم از کم 70 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

دوسری جانب امریکی وزیر دفاع خفیہ دورے پر کابل پہنچے ہیں، جہاں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی اور امریکی فوجی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔

پینٹاگون کے ایک بیان کے مطابق ایسپر نے اپنے ساتھ آنے والے نامہ نگاروں کو بتایا: ’میں دیکھ رہا ہوں کہ افغانستان میں زمین پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں میرے واقعتاً اچھے احساسات ہیں اور مستقبل میں مذاکرات کے لیے بھی اچھی خبریں مل سکتی ہیں۔‘

ایسپر نے مزید کہا: ’ہمارے خیال میں افغانستان میں آئندہ کے اقدامات کے حوالے سے ایک سیاسی معاہدہ آگے بڑھنے کا بہترین راستہ ہو سکتا ہے۔‘

چھ جون 2019 کو لی گئی اس تصویر میں  ایک امریکی فوجی ہیلی کاپٹر  افغان صوبے واردک کے دارالحکومت میں گورنر کے محل کے باہر لینڈ کر رہا ہے۔ (اے ایف پی)


اس وقت افغانستان میں امریکہ کے تقریباً 14 ہزار فوجی تعینات ہیں۔

ایسپر نے کہا کہ فوجیوں کی یہ تعداد آٹھ ہزار چھ سو تک سکڑ سکتی ہے، جس سے داعش جیسے گروپوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات ختم کیے جانے کے بعد امریکہ کے خصوصی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے پاکستان میں طالبان کے ساتھ غیر رسمی بات کی ہے جس نے اس امکان کو بڑھایا ہے کہ امریکہ بات چیت دوبارہ شروع کرنے کا خواہاں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا