خیبر پختونخوا میں لیشمنائسس کی وبا ،ہسپتالوں میں ادویات ناپید

پشاور میں ہزاروں افراد اس خطرناک مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔ اب تک حکومت نے اس پر قابو پانے کے لیے کیا اقدمات کیے ہیں؟

لیشمنائسس کے مریض: تصویر: ڈبلیو ایچ اور

‘میرے گھر میں بچوں اور خواتین سمیت نو  افراد گذشتہ ایک سال سے لیشمنائسس کے مرض میں مبتلا ہیں لیکن ابھی تک انجیکشن کی نایابی کی وجہ سے علاج نہیں ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اس مرض  کی وجہ سے  جلد پر آنے والے زخم خراب ہوتے جا رہے ہیں۔‘

یہ کہنا تھا خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر کے رہائشی واجداللہ کا جن کے گھر کے نو افراد لیشمنائسس کی وجہ سے متاثر ہیں لیکن ابھی تک ان کا علاج نہیں ہو  پا رہا ہے۔

انہوں نے  دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ پہلے انہیں مچھر کی کاٹنے سے یہ بیماری لگی اور بعد میں گھر کے تین خواتین، بچے اور مرد افراد اس بیماری کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے ادویات کی نایابی کے بارے میں بتایا کہ ان کو قریبی تحصیل جمرود کےہسپتال میں کچھ عرصہ تک انجکشن لگائے گئے لیکن ابھی ایک مہینہ سے زائد عرصہ ہوگیا  ہے کہ ہپستال میں انجکشن ناپید ہے۔

’ہمارے بچے اس بیماری کی وجہ سے سکول، مدرسہ اور نہ باہر جا سکتے ہیں۔ اس بیماری کی وجہ سے بچوں کے بدن کے مخلتف حصوں پر زخم   خراب ہوتی جا ررہی ہے اور  انہیں خدشہ ہے کہ کہیں یہ جان لیوا ثابت نہ ہوجائیں۔‘

لیشمنائسس کیا  ہے؟

عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او)  کے مطابق لیشمنائسس بیماری سینڈ مکھی کی مادہ کے کاٹنے سے لگتی ہے۔ بیماری کے جرثومے کی طرف سے بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت کا انحصار ارد گرد کے ماحول، لوگوں کی نقل و حرکت اور دیگر انسانی رویوں پر منحصر ہے۔

یہ مرض ایک مکھی کے باعث لاحق ہوتا ہے جس سینڈ فلائی کہتے ہیں۔ اس مکھی کے کاٹنے سے انسانی جسم پرزخم ابھر آتے ہیں۔

اگر لیشمنائسس کی خطرناک قسم کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو  ۹۵ فیصد کیسز میں یہ جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق  ہر سال 50 ہزار سے 90 ہزار تک کے قریب افراد ہر سال اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

امریکی ٹراپیکل ہائی جین نامی جریدے کے مطابق خیبر پختونخوا  میں اس بیماری  کی بڑھتی ہوئی وجوہات مطابق پشاور کے تین ہسپتالوں میں علاج کی غرض سے آئے ہوئے زیادہ تر مریضوں کا تعلق ضم شدہ اضلاع سے تھے جس میں ضلع خیبر سر فہرست ہے۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پشاور کے ملٹری ہپپتال میں علاج کے لیے آئے ہوئے سکیورٹی اہلکار ضلع شمالی اور جنوبی وزیرستان میں فرائض سر انجام دے رہے تھے جہاں پر وہ اس بیماری کا شکار ہو گئے ہیں جبکہ زیادہ تعداد ضلع خیبر سے آئے ہوئے مریضوں کی تھی۔

کیا حکومتی اقدامات کافی ہیں؟

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق خیبر پختونخوا کے مخلتف اضلاع سے لیشمنائسس کے  2018  سے اب تک 23 ہزار   سے زائد کیسز سامنے آئے ہیں۔

خیبر پختونخوا پبلک ہیلتھ شعبہ کے ڈائریکٹر شاہین آفریدی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ان کیسز میں  19 ہزار کا تعلق  حال ہی میں خیبر پختوخوا میں ضم شدہ اضلاع سے ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے مخلف سطح پر اقدامات اٹھائے ہیں جس میں سے ایک ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔

ادویات کی عدم فراہمی کے بارے میں شاہین آفریدی نے بتایا کہ کیسز زیادہ ہونے کی وجہ سے ادویات کی کمی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے لیکن حکومت نے عالمی ادارہ صحت  کو درخواست کی ہے کہ وہ  صوبے کو ادویات فراہم کریں تاکہ اس بیماری پر قابو پایا جا سکے۔

‘جو کمپنی لیشمنائسس کی دوا تیار کرتی ہے ان کا سٹاک ختم ہو گیا ہےکیوں کہ  یہی مسئلہ افریقہ میں بھی پیدا ہوگیا ہے اور یہی وجہ سے کہ ادویات میں کمی آئی ہے لیکن اس پر جلد قابو پا لیا جائے گا۔‘

عوام میں آگاہی کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ مخلتف اضلاع میں انھوں نے ضلعی صحت افسران کو ہدایات جار ی کی ہے کہ وہ عوام میں آگاہی کے بارے میں مختلف پروگرام منعقد کریں۔

گذشتہ جمعے کے روز میڈیا کے  پریس بریفنگ میں خیبر پختونخوا کے سیکرٹری ہیلتھ ڈاکٹر فاروق جمیل نے بتایا کہ ڈبلیو ایچ او نے 11500 انجکشن دینے کا وعدہ کیا ہے جو کچھ دنوں میں یہ پہنچ جائیں گے اور تاحال مریضوں کا مقامی ادویات سے علاج کیا جا رہا ہے۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی صحت