ایل او سی: لائبہ اور ثوبیہ کو بنکر سکول چاہیے

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر گولہ باری سے متاثرہ علاقوں میں سکولوں کے بچے خوف و ہراس کا شکار ہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر گولہ باری سے متاثرہ علاقوں میں سکولوں کے بچے خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ بیشتر علاقوں میں سکول بند ہیں، تاہم جن علاقوں میں سکول کھولے گئے تھے بچے نہ آنے کے وجہ سے انہیں بھی بند کرنا پڑے۔

چودہ سالہ لائبہ رؤف اور 16 سالہ ثوبیہ رؤف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے جورا کے سرکاری ہائی سکول میں زیر تعلیم تھیں، جس کی عمارت ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات بھارتی فوج کی گولہ باری کے نتیجے میں تباہ ہو گئی۔

 دونوں بہنیں گذشتہ تین دن سے سکول نہیں گئیں کیونکہ گولہ باری سے ان کے سکول کے ساتھ ساتھ گھر بھی تباہ ہو گیا ہے۔

آج دونوں بہنیں اپنی والدہ نرگس بی بی کے ساتھ گھر کا ٹوٹا پھوٹا سامان سمیٹ رہی ہیں۔ عام دنوں میں لائبہ اور ثوبیہ صبح کے وقت سکول میں ہوتی ہیں مگر گولہ باری سے سکول کی عمارت تباہ ہونے کے بعد دونوں کو معلوم نہیں وہ دوبارہ کب سکول جا پائیں گی۔

نرگس بی بی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے گھر پر دو گولے گرے اور وہ اُس وقت گھر کی نچلی منزل پر تھیں۔ ان کا کہنا ہے : 'ہمارا گھر مکمل تباہ ہو گیا اور رہنے کی جگہ نہیں۔ کسی کے گھر میں رہنے آئے ہیں۔ کوئی مورچہ (حفاظتی بنکر) نہیں، رہائش کا کوئی انتظام نہیں، کسی محفوظ جگہ مکان بھی نہیں کہ وہاں جا کر رہیں۔'

وہ حکومت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ یا تو انہیں کسی محفوظ جگہ منتقل کریں یا ان کے لیے مورچوں کا بندوبست کریں۔'

گھر کی تباہی کی ساتھ ساتھ نرگس بی بی اپنی بچیوں کی تعلیم کے لیے بھی فکر مند ہیں۔  'دو چھوٹی چھوٹی بچیاں ہیں وہ بھی سکول نہیں جا سکتیں۔ سکول بھی تباہ ہے، انہیں بھیجیں بھی تو کیسے؟ ہر وقت خوف لگا رہتا ہے کہ پتا نہیں کب فائرنگ شروع ہو جائے۔'

ثوبیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا : 'آج کل ہمارے امتحان ہو رہے تھے۔ سکول میں اب اتنی جگہ بھی نہیں کہ ہم بیٹھ کر پیپر دے سکیں۔ نہ حکومت ہمیں بنکرز بنا کر دیتی ہے۔ اتنی محنت سے یہ گھر بنایا تھا یہ بھی گولہ لگنے سے تباہ ہو گیا۔'

ثوبیہ کی چھوٹی بہن لائبہ کے مطابق: ’سکول جائیں تو بھی ڈر لگتا ہے ،گھر میں ہوں، تب بھی خوف آتا ہے، کوئی پتہ نہیں کب فائرنگ شروع ہو جائے۔ گولہ باری کے وقت سکول میں ہوں تو وہاں پر بھی چُھپنے کی جگہ نہیں ،اساتذہ کہتے ہیں جلد سے جلد گھر پہنچیں۔ گھر پہنچتے ہیں تو گھر والے کہتے ہیں اندر بیٹھو باہر نہ جاو۔ ڈر کے مارے اندر ہی بیٹھے رہتے ہیں۔'

'سکول کھلے مگر بچے نہ آئے'

فائرنگ سے متاثرہ علاقوں میں نجی تعلیمی ادارے ایک دن کے وقفے سے کھل گئے ہیں جبکہ اسی علاقے میں سرکاری تعلیمی ادارے اگلے دو روز تک بند رہیں گے۔

سکولوں کی انتظامیہ کے مطابق انہیں حکومت کی طرف سے سکول کھولنے یا بند رکھنے کے حوالے سے واضح احکامات نہیں ملے البتہ زبانی طور پر بتایا گیا ہےکہ حالات خراب ہوں تو سکول بند کر دیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سعید شاد کے مطابق فائرنگ سے متاثرہ علاقوں میں مردانہ سرکاری سکولوں کو اگلے دو دن کے لیے بند کیا گیا تاہم زنانہ شعبے کے ایجوکیشن آفیسر سرور اعوان نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا طالبات کے سکول کھلے ہیں اور سکولوں کی انتظامیہ کو اختیار دیاگیا ہے کہ وہ حالات کے پیش نظر سکول کھولنے یا بند کرنے کا فیصلہ کر لیں۔

دو روز قبل ہونے والی گولہ باری میں جورا میں سرکاری ہائی سکول کے لیے زیر استعمال نجی عمارت مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی اور کچھ نجی تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔

'بچے خوف زدہ ہیں'

گولہ باری سے متاثرہ علاقوں میں جو سکول کھلے ہیں ان میں آنے والے طلبا و طالبات کی تعداد انتہائی کم تھی، جس کی وجہ سے جلد ہی ان اداروں میں بھی چھٹی کر دی گئی۔

حکام اس کی وجہ فائرنگ سے متاثرہ علاقوں کے بچوں میں پائے جانے والے خوف و ہراس کو قرار دے رہے ہیں۔

پرائیویٹ سکول ایسوسی ایشن کے ایک عہدے دار آفتاب حسین کے بقول فائرنگ کے بعد کئی لوگوں نے اپنے بچے محفوظ علاقوں میں منتقل کر دیے ہیں جو یہاں موجود ہیں وہ بھی سکول آنے سے ڈرتے ہیں۔

'کسی سکول کے ساتھ بنکر نہیں'

سعید شاد بتاتے ہیں کہ ایل او سی کے قریب زیادہ تر سکول براہ رست گولہ باری کی زد میں ہیں اور ماضی میں بھی سکول متاثر ہوتے رہے ہیں مگر سرکاری یا نجی کسی بھی سکول میں حفاظتی بنکر تعمیر نہیں کیا گیا۔

'ہم نے کچھ زیر تعمیر سکولوں کے ساتھ بنکر تعمیر کرنے کی کوشش کی تھی مگر ٹھیکے داروں کا کہنا ہے کہ وہ طے شدہ ڈیزائن سے ہٹ کر کوئی چیز تعمیر نہیں کر سکتے۔'

ان کا کہنا ہے اکثر سکولوں میں بچے کئی کئی کلو میٹر دور پہاڑی راستوں پر پیدل چل کر آتے ہیں۔ اگر گولہ باری شروع ہو جائے تو ان کو نہ تو سکول میں رکھا جا سکتا ہے اور نہ گھر واپس بھیجا جا سکتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی