سونے اور کھانے والے کمرے سے موبائل فون کو باہر نکال دیں

حالیہ تحقیق کے مطابق اس امر کو یقینی بنایا جائے تو بچے خود بہ خود موبائل کم استعمال کرتے ہیں

ماہرین کے مطابق سونے سے ایک گھنٹہ  پہلے بچوں کو سکرین کا استعمال ترک کر دینا چاہیے

حال ہی میں طبی ماہرین کی جاری کردہ گائیڈ لائنز کے مطابق انگلستان میں تمام والدین کو مشورہ دیا گیا ہے کہ اپنے بیڈروم سے اور کھانا کھانے والے کمرے سے موبائل فون باہر نکال دیں۔ دوسری صورت میں ان اوقات کے دوران اس کا استعمال بند کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

انگلینڈ، ناردن آئر لینڈ، ویلز اور اسکاٹ لینڈ کے چیف میڈیکل آفیسرز کے مطابق بڑوں کو خود ایک مثال کی صورت میں سامنے آنا چاہیے۔

 ان کا سکرین ٹائم انھیں خود کنٹرول کرنا چاہیے اور ان کا آن لائن رویہ ایسا ہونا چاہیے جس سے بچے یقینی طور پہ اچھا اثر لے سکیں۔ 

آن لائن ضائع کیے جانے والے اس ٹائم کے بارے میں کی گئی تحقیق میں انھوں نے کچھ احتیاطی تدابیر بتائیں جن کی مدد سے بچوں کے سکرین ٹائم کو کم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا گیا کہ بچوں کے سکرین ٹائم کی حتمی حد مقرر کرنا مشکل ہے۔ 

اس رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ پر بہت سی ایسی تحقیقات موجود ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال دماغی امراض میں اضافہ کرتا ہے، لیکن ایسی کوئی تحقیق نہیں ہے جو باضابطہ طور پر یہ بتاتی ہو کہ ٹیکنالوجی کا استعمال واقعی نقصان دہ ہے۔ 

انگلینڈ کے چیف میڈیکل آفیسر پروفیسر ڈیم سیلی ڈیویز نے کہا: 'اگر مثبت مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو آن لائن رہتے ہوئے بہت سے اچھے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں اور نوجوانوں کو پڑھائی اور دیگر معاملات میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ لیکن ہمیں کچھ احتیاطی تدابیر ضرور اپنانی ہوں گی اور ہماری کوشش ہمیشہ یہی ہو گی کہ بچے اس سہولت کا مناسب فائدہ اٹھائیں اور انھیں کوئی نقصان نہ ہو۔‘ 

چیف میڈیکل آفیسر کی گائیڈ لائنز کے مطابق نیند بچوں کے لیے بہت ضروری ہے اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے گھروں میں یہ اصول بنا لیں کہ فون سونے والے کمروں سے باہر ہوا کریں گے۔ 

گذشتہ ماہ ایک گائیڈ لائن ایسی بھی دیکھی گئی جو بچوں کے ڈاکٹروں کی جانب سے متفقہ طور پر سامنے آئی تھی۔

اس میں یہ کہا گیا تھا کہ سمارٹ فون اور سوشل میڈیا سے مختلف مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب یہ چیزیں بچوں کی نیند یا ماں باپ کے ساتھ ان کے گزارے گئے وقت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ 

اس رپورٹ میں درج چند دیگر اہم نکات یہ تھے: 

  • والدین کو بچوں کی تصویریں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لگانے سے منع کیا گیا۔ انھیں یہ بتایا گیا کہ ضروری نہیں ان کے بچے اس سے خوش ہوتے ہوں، وہ کوئی الجھن بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ 
  • والدین کو کہا گیا کہ ہر ایک گھنٹے بعد ان کا اور بچوں کا کمپیوٹر کے سامنے سے اٹھنا اور آس پاس کا ایک چکر لگا کے آنا بہت ضروری ہے۔ 
  • والدین کو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ بچوں کے لیے سوشل میڈیا ٹریکر یا اسکرین ٹائم کے استعمال کو نوٹ کرنے والا سافٹ وئیر استعمال کریں۔ 
  • چیف میڈیکل آفیسر نے یہ بیان بھی دیا کہ فیس بک وغیرہ جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بچوں کو ان کی عمر کے مطابق محدود سرگرمیوں کی اجازت دینا اور اس کا پابند کرنا بنیادی طور انھیں بنانے والی کمپنیوں کا ہی فرض ہے۔ 

اس بیان کے مطابق ٹیکنالوجی سے متعلقہ تمام کمپنیوں کو بھی اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنا ڈیٹا ریسرچ کرنے والوں کو مہیا کریں تاکہ بچوں کی ذہنی صلاحیتوں پر جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے اثرانداز ہونے کا جائزہ لیا جا سکے۔ 

رائل کالج آف سائیکاٹری کی ڈاکٹر برناڈکا ڈوپیکا کے مطابق حالیہ موصول ہونے والی تحقیق بالکل درست ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ استعمال جتنا زیادہ ہو گا بچوں میں اس کا نقصان بھی اسی حساب سے زیادہ ہوتا چلا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ یہ بالکل واضح ہے کہ بعض ایسی چیزیں بھی بچے آن لائن دیکھ رہے ہیں جو انھیں نہیں دیکھنی چاہییں، جیسے بھوکا رہنے اور ڈائٹنگ کرنے کی ویڈیوز، اپنے آپ کو نقصان پہنچانے سے متعلق مختلف معلومات یا خودکشی کے رجحانات اور ممکنہ طریقوں پر بحث۔ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو یقینی طور پر انھیں نہیں دیکھنی چاہییں۔

بچوں کے آن لائن تحفظ سے متعلقہ ادارے کے سربراہ اینڈی بروز نے ان تمام اقدامات پر ممکنہ عمل درآمد کو خوش آمدید کہا اور انھوں نے بتایا:

'کم ازکم پچھلی ایک دہائی سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں بچوں کو اپنے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے میں ناکام رہی ہیں اب اس چیز پر مزید وقت ضائع نہیں کیا جاسکتا۔ یہ وہ وقت ہے جب انھیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ہم سنجیدگی سے حکومت کے ایسے کسی بھی قدم کی حوصلہ افزائی کریں گے جس کے نتیجے میں جلدازجلد یہ قانون بنایا جائے جو بچوں کے تحفظ کو ممکن بناتا ہو۔ نیز اگر ان کمپنیوں کی وجہ سے بچوں کو کسی قسم کا نقصان ہو تو انہیں مناسب سزا بھی دی جا سکے۔  

زیادہ پڑھی جانے والی صحت