طالبان اور افغان عمائدین ایک بار پھر بات چیت کے لیے تیار

افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق طالبان نمائندوں اور افغانستان کی بااثر اور نمایاں شخصیات کے درمیان بات چیت 28 اور 29 اکتوبر کو چین میں متوقع ہے۔

8 جولائی کو دوحہ میں انٹرا افغان مذاکرات کے دوران افغان طالبان کا وفد (اے ایف پی)

افغان طالبان نے کہا ہے کہ ملک میں امن کے لیے انٹرا افغان بات چیت کا نیا دور آئندہ ہفتے چین میں ہو گا جس میں نمایاں افغان شخصیات اور طالبان کے نمائندے ایک بار پھر آمنے سامنے بیٹھیں گے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے یہ بیان منگل کو جاری کیا جس سے سالوں سے جنگ کے شکار ملک میں پائیدار امن کے لیے مذاکرات کی بحالی کی امیدیں پیدا ہو گئی ہیں۔

ترجمان کے مطابق طالبان نمائندوں اور افغانستان کی بااثر اور نمایاں شخصیات کے درمیان بات چیت 28 اور 29 اکتوبر کو چین میں متوقع ہے۔

اس سے قبل جولائی میں بھی طالبان اور افغان نمائندے قطر کے درالحکومت دوحہ میں مذاکرات میں حصہ لے چکے ہیں۔

سہیل شاہین نے کہا کہ طالبان امریکہ کے ساتھ بھی وہیں سے مذاکرات کا آغاز کرنے کے لیے تیار ہے جہاں سے ستمبر میں یہ سلسلہ ٹوٹا تھا۔

شاہین نے انکشاف کیا کہ طالبان ایک معاہدے پر دستخط کے لیے تیار تھے اور معاہدے پر دستخط کرنے کی تاریخ کا انتخاب بھی 13 ستمبر کو ہو چکا تھا، اور دستخط کرنے کے فوراً بعد ہی طالبان نے صرف امریکی اور نیٹو فوجیوں کے خلاف جنگ بندی کا اعلان کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

سہیل شاہین کے مطابق معاہدے کے تحت 23 ستمبر کو طے پائے جانے والے پہلے مجوزہ انٹرا افغان مذاکرات کے دوران افغان سکیورٹی فورسز کے ساتھ بھی جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا۔

ایک اور طالبان عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکہ کے مجوزہ معاہدے میں قیدیوں تبادلے کے عوض پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی پر بھی اتفاق ہو گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ نے سوموار کو کہا تھا کہ امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمی خلیل زاد نے افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ، یورپ اور نیٹو کے اتحادیوں سے بات چیت کے نئے دور کا آغاز کر دیا ہے۔

محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ زلمے خلیل ذاد بعد میں روسی اور چینی نمائندوں سے بھی افغانستان میں جنگ کے خاتمے کی مشترکہ خواہش پر تبادلہ خیال کریں گے۔

18 سال سے جاری جنگ کی قیادت کرنے والے امریکہ کے 14 ہزار فوجی اب بھی افغانستان میں تعینات ہیں۔

صدر ٹرمپ نے گذشتہ ماہ ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد اُس وقت طالبان سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جب دونوں فریق مہینوں کی بات چیت کے بعد امن معاہدے کے قریب پہنچ چکے تھے۔

امریکہ کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات ختم کیے جانے کے بعد زلمے خلیل زاد نے رواں ماہ پاکستان میں طالبان کے ساتھ غیر رسمی ملاقات کی تھی جس نے اس امکان کو بڑھا دیا تھا کہ امریکہ بات چیت دوبارہ شروع کرنے کا خواہاں ہے۔

تاہم محکمہ خارجہ نے سوموار کو کہا ہے کہ اگرچہ زلمے خلیل زاد کا پاکستان کا دورہ طالبان سے مذاکرات کی بحالی کے حوالے نہیں تھا پھر بھی اس سے بات چیت کا آغاز ہو سکتا ہے۔

انٹرا افغان مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر گذشتہ ہفتے ہی غیر اعلانیہ دورے پر کابل پہنچے تھے۔

پینٹاگون کے ایک بیان کے مطابق مارک ایسپر نے اپنے ساتھ آنے والے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ افغانستان میں تعنیات 14 ہزار فوجیوں کی تعداد آٹھ ہزار چھ سو تک کم کی جا سکتی ہے۔

لیکن امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ کوئی بھی انخلا طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے حصے کے طور پر ہو گا۔

ان کا کہنا تھا: ’میں دیکھ رہا ہوں کہ افغانستان میں زمین پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں میرے واقعتاً اچھے احساسات ہیں اور مستقبل میں مذاکرات کے لیے بھی اچھی خبریں مل سکتی ہیں۔‘

ایسپر نے مزید کہا: ’ہمارے خیال میں افغانستان میں آئندہ کے اقدامات کے حوالے سے ایک سیاسی معاہدہ آگے بڑھنے کا بہترین راستہ ہو سکتا ہے۔‘

افغانستان اس وقت 28 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے پہلے دور کے بعد بے چینی سے نتائج کے انتظار میں ہے۔

اس دوران افغانستان میں طالبان کے حملے جاری ہیں۔ جمعے کو صوبہ ننگرہار میں ایک مسجد پر حملے کے نتیجے میں کم از کم 70 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا