عافیہ صدیقی پر نئی کتاب، بعض اہم سوالات اب بھی جواب طلب

پاکستانی قانون دان داؤد غزنوی کی کتاب ’عافیہ ان ہرڈ‘ سے بظاہر عافیہ صدیقی کے گرد واقعات کی کچھ وضاحتیں سامنے آئیں ہیں لیکن بعض کلیدی سوالات اب بھی جواب طلب ہیں۔

امریکہ میں اسیر ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر پاکستانی قانون دان داؤد غزنوی نے ’عافیہ ان ہرڈ‘ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے جو امریکہ میں (آج) 24 اکتوبر کو آن لائن جاری کر دی گئی ہے۔ یہ کتاب اپنی اشاعت سے پہلے ہی ایمیزون پر بیسٹ سیلر کتابوں میں شامل ہو چکی ہے جبکہ پیپر بیک پر یہ کتاب نو نومبر کو ہیوسٹن، امریکہ میں جاری کی جائے گی۔

’عافیہ ان ہرڈ‘ کے مصنف اٹارنی داؤد غزنوی نے اس کتاب کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ وہ اس کتاب کے ذریعے پاکستان اور امریکہ دونوں حکومتوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جگہ تبدیل کی جائے کیونکہ ان کے امریکہ میں قید ہونے کو ہر سیاسی و مذہبی جماعتیں اور دہشت گرد تنظیمیں استعمال کر رہی ہیں، جن میں داعش بھی شامل ہے، اور خطے میں انتہا پسندی کا ایک سبب بن رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں مشورہ دیا ہے کہ عافیہ کو پیس ایجنٹ کے نام پر پاکستان واپس لایا جائے اور اس کا فائدہ پاکستان اور امریکہ دونوں ممالک کو ہوگا۔

داؤد کا دعویٰ ہے کہ اس کتاب کو لکھنے کے لیے کورٹ سے حاصل کردہ جتنے بھی دستاویزات انہوں نے پڑھیں ہیں ان میں پتہ چلا کہ عافیہ صدیقی القاعدہ کے کسی بھی معاملے میں ملوث نہیں پائی گئیں نہ اس میں ان کو سزا ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا: ’اگر عافیہ کو امریکی جیل میں کچھ ہوا تو اس کا منفی اثر دونوں ممالک پر ہوگا۔‘

یہ کتاب ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب چند روز قبل امریکی کانگرس کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں بریڈ شارمن نے تجویز دی کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بدلے اگر پاکستان کسی سزا یافتہ قیدی کی رہائی کا بھی مطالبہ کرتا ہے تو امریکہ کو یہ مطالبہ تسلیم کر لینا چاہیے۔ انہوں نے تاہم کسی قیدی کا نام نہیں لیا تھا۔

’عافیہ ان ہرڈ‘ کیوں لکھی؟

داؤد غزنوی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عافیہ صدیقی کا کیس ’انتہائی متنازع اور پراسرار ہے کہ آپ کو سمجھ نہیں آتی کہ آپ کس حلقے کی بات مانیں۔ امریکی یا پاکستانی حکومت کی، عافیہ کے خاندان والوں کی یا عوام کی ان کے بارے میں قائم ذاتی رائے کو مانا جائے۔‘

انہوں نے کہا: ’میں نے حقیقت جاننے کے لیے امریکہ کی سدرن ڈسٹرکٹ کورٹ نیو یارک، جہاں 2008 سے 2010 تک عافیہ صدیقی کا ٹرائل ہوا تھا، کے مقدمے کی پانچ ہزار کے قریب دستاویزات حاصل کیے۔ ان تمام دستاویزات کو پڑھنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ جو معلومات اس کیس کے حوالے عوام کو ملی ہیں وہ انتہائی مسخ شدہ تھیں۔ مقدمے کی 60 سے 70 فیصد حقیقی سچائی عوام تک پہنچی ہی نہیں۔ میرے لیے یہ بہت اہم تھا کہ میں یہ وضاحت سامنے لے کر آؤں جو دراصل عدالت میں ان کے ساتھ ہوا۔‘

عافیہ صدیقی کی ٹیسٹیمنی کیا ہے؟

مصنف کہتے ہیں کہ انہیں یہ کتاب تحریر کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ عافیہ وہ واحد قیدی ہیں جنہوں نےالزام کو قبول نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا: ’جب آپ عافیہ کا بیان عدالتی دستاویزات میں پڑھتے ہیں تو وہ واضع طور پر کہتی ہیں کہ ان کے ’نام پر دنیا میں کوئی دہشت گردی نہیں ہونی چاہیے، میرا کوئی تعلق نہیں ہے دہشت گرد تنظیموں سے یا میں نے کسی امریکی افسر پر گولی نہیں چلائی‘۔‘

داؤد نے مزید کہا کہ عافیہ نے کورٹ کی مختلف سماعتوں میں بار بار یہ بتایا ہے کہ وہ بگرام، افغانستان میں خفیہ جیل میں قید رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عافیہ صدیقی ڈیلوژن ڈس آرڈر کا بھی شکار ہیں جس وجہ سے انہیں کچھ چیزیں یاد ہیں اور کچھ نہیں۔

عافیہ افغانستان کیوں اور کیسے پہنچیں؟

ان کے افغانستان پہنچنے کے حوالے سے داؤد کا کہنا ہے کہ ’عافیہ ان ہرڈ‘ میں انہوں نے بتایا ہے کہ امریکہ کا بیانیہ تین قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔

1۔ خالد شیخ محمد کے بھتیجے عمار ال بلوچی سے عافیہ صدیقی کی شادی ہوئی اور عافیہ انہیں ڈھونڈنے افغانستان چلی گئیں۔

2۔ عافیہ افغانستان امریکہ کے خلاف جنگ لڑنے گئیں۔

3۔ عافیہ کے پاس کچھ ہتھیار، کیمیکلز اور چند دستاویزات تھے جنہیں وہ طالبان تک پہنچانے کے لیے افغانستان پہنچیں۔

داؤد نے کہا: ’عدالت میں عافیہ کے 2003 سے 2008 تک لاپتہ رہنے کے بارے میں بحث شروع ہوئی تو عدالت نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ جب عافیہ کے عمار ال بلوچی کے پیچھے افغانستان جانے کے ثبوت طلب کیے تو عدالت کو بتایا گیا کہ ثبوت صرف وہ دستاویزات ہیں جو وہاں موجود امریکی سکیورٹی ایجنسیز کے پاس ہیں۔ اب عدالت نے وہ دستاویزات منگوائے یا نہیں اس کی وضاحت ہمیں تحریری طور پر کہیں نہیں ملتی۔‘

 داؤد کہتے ہیں کہ اس بات کی تردید کہ عافیہ خود ہی افغانستان گئیں تھیں ’وہ ہمیں مختلف خبر رساں ایجنسیوں اور دیگر حلقوں سے ملتی ہے۔ اور اس میں سب سے اہم ریسرچ ہے برطانوی صحافی ایوان رڈلی کی جنہوں نے 2006 سے 2008 تک تحقیق کی اور قیدی 650 کے نام سے ایک مہم بھی چلائی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عافیہ کے کیس کو سمجھنے کے لیے عزیر پراچہ کے کیس کو سمجھنا ضروری ہے۔ ’امریکہ کے اندر بالٹیمور گیسو لائن ایک سازش ہوئی تھی جس میں چھ لوگوں کو ملوث کیا گیا جن میں خالد شیخ محمد، ماجد خان، عزیر پراچہ ان کے والد سیف اللہ پراچہ، عمار ال بلوچی اور عافیہ صدیقی تھیں۔‘

اس کیس میں عافیہ صدیقی پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے ماجد خان کے لیے بالٹیمور میں ایک میل باکس کھولا تھا اور یہ اس گروپ کی سہولت کار بنیں ہیں۔ داؤد کے مطابق: ’دلچسپ بات یہ ہے کہ عافیہ 26 مارچ 2003 کو کراچی سے غائب ہوتی ہیں، اسی ماہ میں اس کیس میں ملوث باقی افراد بھی مختلف تاریخوں پر پکڑے جاتے ہیں اور پھر 18 مارچ کو ایک نوٹس الرٹ ہوتا ہے کہ عافیہ ایف بی آئی کو درکار ہیں۔ اس کے بعد 26 مارچ کو عزیر پراچہ امریکہ میں گرفتار ہوتے ہیں جس کے بعد کہا گیا کہ عافیہ غائب ہو گئی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا عافیہ خود غائب ہوئیں یا وہ بھی انہی پانچوں کی طرح امریکہ کے حوالے کر دی گئیں تھیں؟ اس میں ہمیں میڈیا پر آنے والی جو خبریں ملتی ہیں ان کے مطابق عافیہ کو کراچی میں ان کے کسی رشتہ دار کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔ کچھ عرصہ ان سے مقامی طور پر تفتیش کی گئی اور پھر انہیں سی آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔ اس سارے معاملے کے بعد خاموشی ہو گئی کیونکہ پاکستان نے کہا کہ ان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔‘

’اس کے بعد 2006 میں کچھ قیدی بگرام جیل سے رہا ہوئے جنہوں نے ایک ویڈیو بنائی اور انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک عورت کو وہاں دیکھا ہے جس پر تشدد ہو رہا ہے۔ یہ ویڈیو جب ایوان رڈلی کے پاس پہنچی تو وہ اسی جیل کے ایک قیدی معظم بیگ سے رابطہ میں تھیں۔ معظم بیگ پاکستانی نژاد برطانوی شہری تھے اور پاکستان سے ہی غائب ہوئے تھے۔ یہ ایک کتاب ’اینمی کمبیٹنٹ‘ کے مصنف بھی تھے۔‘

داؤد کے مطابق: ’معظم بیگ 2006 میں جیل سے رہا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں یہ واقع لکھا کہ ایک خاتون کی چیخوں کی آوازیں رات کو جیل میں سنائی دیتی ہیں اور وہ تین ہفتے تک ڈپریشن میں رہے کہ یہ عورت کون ہے، تاہم معظم اپنی رہائی تک یہ نہیں جان سکے تھے کہ چیخنے والی وہ عورت کون تھی۔ اسی کی تحقیق کے لیے ایوان رڈلی نکل پڑیں اور انہیں اسی جیل کے ایک اور قیدی نے بتایا کہ وہ خاتون قیدی نمبر 650 ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’عافیہ ان ہرڈ‘ کے مصنف کے مطابق: ’ایوان نے پینٹاگون میں بھی درخواست بھیجی کہ انہیں بتایا جائے کہ یہ خاتون کون ہیں تو انہیں یہ جواب آیا کہ وہ اس خاتون کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ جولائی 2008 میں ایوان رڈلی پاکستان آئیں اور انہوں نے عمران خان کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے پاکستانی عوام اور حکومت سے اپیل کی کہ وہ امریکہ سے پوچھیں کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کہاں ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’11 جولائی کو بگرام جیل سے ایک امریکی افسر کا پیغام ملتا ہے کہ یہاں پر عافیہ نام کی کوئی عورت نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی 17 جولائی کو یہ واقع سامنے آتا ہے کہ عافیہ نے غزنی میں امریکی اہلکار پر گولیاں چلائی ہیں یا ان پر بندوق تانی ہے۔ اس کے بعد ایوان رڈلی کو پینٹاگون سے خبر ملتی ہے 2006 میں بگرام جیل میں پرزنر 650 تھا لیکن وہ عافیہ صدیقی نہیں تھیں۔ عافیہ کے عدالت میں بیان سے واضع ہے کہ وہ خفیہ جیل میں تھیں مگر یہ ایک معمہ ہے کہ وہ وہاں کیسے پہنچی تھیں؟‘

داؤد نے کہا: ’عافیہ جب غزنی سے پکڑی گئیں اور انہیں غزنی پولیس سٹیشن لے جایا گیا تب وہاں کے گورنر عثمان نے امریکہ کو اطلاع دی کہ ایک خاتون کو گرفتار کیا گیا ہے جن کے ہاتھ میں ایک بیگ ہے جس میں بارودی مواد ہے اور امریکی سکیورٹی اس معاملے کی تفتیش کرے۔ جس کے بعد ایف بی آئی نے عافیہ سے غزنی تھانے میں تفتیش کرنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر انہیں صرف انٹرویو کی اجازت ملی، اس شرط پر کہ وہ انہیں ساتھ نہیں لے جا سکتے۔اس کے بعد وہاں فائرنگ کا واقع ہوا جس میں عافیہ صدیقی کو دو گولیاں لگیں اور امریکی اہلکار انہیں اٹھا کر بگرام کے ایک ہسپتال لے گئے۔ عافیہ نے عدالت میں اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ جب وہ 14 روز ہسپتال میں رہیں تو انہوں نے کئی بار وہاں موجود امریکی افسروں کو اپنے گھر رابطہ کرنے کی گزارش کی۔ عافیہ نے یہ بھی کہا کہ وہ ان کا رابطہ پاکستانی سفارت خانے سے کروا دیں مگر کسی کو کوئی اطلاع نہیں کی گئی۔‘

’عافیہ عدالت میں دیے گئے اپنے بیان میں یہ بھی کہتی ہیں کہ غزنی پولیس سٹیشن میں بھارتی فوج کے کچھ لوگ آئے تھے۔ اس کے علاوہ اس معاملے پر عدالتی دستاویزات میں کوئی تفصیلات موجود نہیں ہیں کہ ان کی عافیہ سے کیا بات ہوئی۔‘

داؤد نے بتایا کہ سدرن ڈسٹرکٹ کورٹ نیو یارک میں عافیہ کا فیصلہ سنائے جانے سے پہلے ایک شخص اٹھا اور اس نے دو جیوررز کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے غصہ میں کچھ کہا۔ انہوں نے سوال کیا کہ وہ شخص کون تھا اور ان دو جیوررز کے ساتھ عدالت نے کیا کیا؟

داؤد نے بتایا کہ عدالت نے ان دونوں جیوررز کو تبدیل کر دیا اور یہ معاملہ امریکی اٹارنی جنرل کے پاس بھیج دیا گیا کہ جیوررز کو دھمکانے والے شخص کی تفتیش کی جائے کہ وہ ہے کون؟ لیکن عافیہ نے جب اپنا اختتامی بیان دیا تو انہوں نے کہا کہ ان کے ذرائع کے مطابق وہ دو جیوررز ان کے حق میں فیصلہ دینا چاہتے تھے۔ یہ معاملہ ابھی تک حل نہیں ہوا نہ اس کے بعد کسی نے اس کو دیکھا ہے۔

کیا عافیہ القاعدہ کی فنڈنگ کے لیے لائبیریا میں ہیرے سمگل کرتی تھیں؟

داؤد نے بتایا کہ عافیہ پر دو کیس تھے جن میں عزیر پراچہ کیس تھا جس میں ان پر الزام ثابت نہیں ہوا تھا اور انہیں بری کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح لائبیریا والے کیس میں بھی اٹارنی جنرل کے آفس نے یہ چارجز واپس لے لیے تھے۔

کیا عافیہ صدیقی دہشت گرد ثابت ہوسکیں؟ 86 برس کی سزا کیوں دی گئی؟

داؤد کا کہنا ہے کہ ان کے پاس موجود کورٹ کے دستاویزات کے مطابق امریکی پراسیکیوٹر نے واضع طور پر یہ کہا کہ ’یہ ہمارے کیس ہی نہیں ہیں کہ عافیہ القاعدہ کی ممبر ہیں، ہم اس طرف آنا ہی نہیں چاہتے۔‘

انہوں نے کہا: ’دوسری چیز یہ تھی کہ عافیہ پر امریکی قوانین کے تحت سات دفعات لگائی گئی تھیں اور ہر کائونٹ کی سزا ملا جلا کر 35 سے 40 برس بنی مگر جج برمن نے عافیہ کو 86 برس کی سزا دے کر زیادتی کی۔‘

 

حسین حقانی جج سے کیوں ملے، 2255 موشن کیا ہے؟

داؤد نے بتایا کہ 2255 موشن کے مطابق اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کسی مقدمہ میں بہت زیادہ بےضابطگیاں تھیں جس میں ایک انسان کے آئینی حق کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو آپ ایک موشن دائر کر کے اس مقدمے کو غلط قرار دے سکتے ہیں۔ عافیہ کے مطابق ان کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہوئی کیونکہ وکیل ان کی مرضی کے نہیں تھے۔

عافیہ نے اس پر 2255 موشن عدالت میں جمع کروا دی جس کی سماعت بھی جج برمن کے پاس ہوئی جو ان کا مقدمہ دیکھ رہے تھے۔ اسی دوران امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی جج برمن کو ملنے گئے، جس پر عافیہ نے عدالت میں جج کو تبدیل کرنے کی درخواست بھی دے دی۔ درخواست میں لکھا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ جج برمن ان کے خلاف تعصب رکھتے ہیں اور وہ حسین حقانی سے بھی ملے ہیں اور اس کی تفتیش ہونی چاہیے کہ یہ دونوں کیوں ملے اور ان کی آپس میں بات کیا ہوئی؟ اس درخواست کے جواب میں جج برمن نے وضاحت دی کہ حسین حقانی سے ان کی ملاقات چند لمحوں کے لیے ہوئی لیکن یہ ایک معمہ ہے کہ حسین حقانی جج کو کیوں ملے۔ اس حوالے سے کوئی تحریری بیان نہیں ملتا۔ اس کے بعد عافیہ نے 2255 موشن کی درخواست واپس لے لی جس پر جج نے بیان دیا کہ اگر عافیہ یہ کیس میرٹ پر بھی لڑتی تب بھی میں یہ کیس خارج کر دیتا۔

عافیہ کا آخری بیان کیا تھا؟

داؤد نے بتایا کہ عافیہ صدیقی نے اپنے آخری بیان میں یہ قبول کیا کہ وہ امریکہ میں موجود چند مسلمان تنظیموں کو چندہ دیتی تھیں کیونکہ وہ تنظیمیں مسلمانوں کی فلاح کے لیے کام کرتی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بچوں کی تعلیم کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے دنیا بھر کو پیغام دیا کہ ان کے نام کو استعمال کر کے کہیں کوئی دہشت گردی نہ کی جائے۔ سزا سے پہلے انہوں نے اپنے بیان میں جج برمن اور ان کے خلاف گواہی دینے والے تمام گواہان کو معاف کردیا تھا۔

اس نئی کتاب سے بظاہر عافیہ صدیقی کے گرد واقعات کی کچھ وضاحتیں سامنے آئیں ہیں لیکن بعض کلیدی سوالات اب بھی جواب طلب ہیں۔

مکمل انٹرویو دیکھیے:

 

زیادہ پڑھی جانے والی ادب