سکس پیک، منشیات، سیکس اور ہمارے بچے 

آپ کے پاس مواقع کم تھے، آپ کی آزمائش کم تھی۔ آپ کے بچے کیبل اور انٹرنیٹ دور کے بچے ہیں۔ ان کے پاس مواقع زیادہ ہیں، ان کی آزمائش بھی زیادہ ہے۔

ہماری پوری نسل یہ سمجھتی رہی کہ سگریٹ پینا، چرس کے دھوئیں اڑانا، میلا بن کے پھرنا، پھٹی ہوئی پتلون پہننا، شلوار قمیص پہ شال کی بکل مار کے اداس شاعر کے جیسے مکھڑا نکال کے گھومنا، شرابی ترین ہونے کی پھڑ مارنا، منشیات پسند ہونا، الجھے بال اور بڑھی شیو کے گال، یہ سب کچھ لڑکیوں کو پسند آتا ہے۔(تصاویر: پکسابے)

آپ کو کسی نے بتایا ہے کہ لڑکیاں سکس پیک کچھ خاص پسند نہیں کرتیں؟ ہائے ہائے! واردات ہو گئی۔ فقیر بھی نہیں جانتا تھا۔ بچپن کیا جوانی میں بھی نہیں جانتا تھا۔ انٹرنیٹ عام ہوا تب بھی نہیں جانتا تھا۔ گوگل چلنے لگا تب بھی نہیں جانتا تھا۔ ایک دن ریڈنگز میں بیٹھا تھا، کوئی کتاب پڑھ رہا تھا کہ اس میں لکھا نظر آ گیا۔

اب بات خالی سکس پیکس کی تو ہو ہی نہیں رہی نا، پورے باڈی بلڈنگ، مسلز، جسم کی کٹنگ، سب کے چیتھڑے اڑا دیے ہیروئن نے۔ وہ ہیرو سے بولی، تمہیں پتہ ہے تم مرد لوگ جو ہر وقت جم میں گھسے رہتے ہو، بازوؤں کے ڈولے بناتے رہتے ہو، کمر سے چربی کی ایک ایک بوٹی اڑانے کے چکر میں ہوتے ہو، پیٹ کے مسلز کو ایسے بنانا چاہتے ہو جیسے فلموں کے ہیرو قمیص کے بغیر دکھاتے پھرتے ہیں، تم لوگ یہ سب کیوں کرتے ہو؟

ہیرو غریب معصومیت سے منہ کھولے سن رہا ہوتا ہے۔ وہ کچھ کہنے لگتا ہے لیکن مسلسل بولتی ہوئی وہ لڑکی یہاں ایک دردناک انکشاف کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ تم یہ سب اس لیے کرتے ہو تاکہ عورتیں تمہیں پسند کریں، تمہاری تعریف کریں جب کہ دنیا میں مجھ سمیت پینسٹھ فیصد لڑکیاں ایسی ہیں جنہیں نارمل جسم کے مرد زیادہ پسند ہوتے ہیں۔ جو باقی ہیں، وہ تمہارے سکس پیکس شاید پسند کرتی ہوں لیکن انہیں لگتا ہے کہ اس چکر میں تم کریک ہو چکے ہو گے۔ 

اب ہیرو تھوڑا مایوسی اور حسرت سے پوچھتا ہے کہ وہ کیسے، تو وہ بتاتی ہے کہ ہم لڑکیوں کو ایسے مرد مغرور سے لگتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ کبوتر کی طرح سینہ باہر نکال کر اور ہرن کی طرح پیٹ اندر دبا کر چلنے والے لڑکے اتنی فرصت کہاں رکھتے ہوں گے کہ ہم سے ہماری باتیں کر سکیں؟ انہیں اپنی ورزشوں، اپنی سپیشل خوراکوں، اپنے شیڈول اور اپنے کپڑوں کی سلیکشن سے فرصت ملتی ہی کب ہو گی کہ یہ ہمارے بارے میں کچھ سوچ سکیں۔ تو ہم ایسے مردوں کے ساتھ ایزی نہیں ہوتیں۔

پھر اگر کوئی ایسا مل بھی جائے تو ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ یہ آج گیا یا کل گیا۔ یہ جو اتنی محنت اپنے جسم پہ کر رہا ہے یہ صرف ہمارے لیے تو نہیں کر رہا، تو اس نے کون سا ٹک جانا ہے۔ اس لیے ہم عورتیں ایسے مردوں کو سیریس نہیں لیتیں۔ وہ ہیرو سڑ کے بولا کہ تمہیں زیادہ وزن والے مرد پسند ہیں تو ادھر میرے ساتھ بیٹھی ہی کیوں ہو؟ تب وہ بندی اسے بتاتی ہے کہ جانو آپ غلط سمجھ رہے ہیں، ٹکڑوں میں بٹے شدید ورزشی جسم اور نارمل انسان کے جسم میں فرق ہوتا ہے۔

ہمیں وہ آدمی قدرتی طور پہ زیادہ پسند آتے ہیں جن کا جسم نارمل ہو۔ جو سکس پیک اور ڈولوں کے پیچھے پاگل نہ ہوں۔ جو ہمارے لیے وقت نکال سکیں۔ جو دو گھنٹہ جم میں گھسنے کی بجائے آدھا گھنٹہ ہماری چائے بکواس سن سکیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ نارمل آدمی ہمیں زیادہ توجہ دیں گے، جلدی ہمیں چھوڑ کے نہیں جائیں گے، زیادہ انا کے مارے نہیں ہوں گے، ہمیں سہہ سکیں گے، تو ہم لڑکیاں لوگ اس لیے ان کے بارے میں زیادہ نیک خیالات رکھتی ہیں۔

ہیرو کی تو وہاں ہو گئی نا جو ہونا تھی۔ اپنی بات کریں، اب کیا کریں ہم لوگ کہاں جائیں؟ ہماری نسل تو یار پوری جوانی اسی چکر میں گزار گئی کہ ’بچیاں ڈولے پسند کرتی ہیں۔‘ بھائی نے فوراً نیٹ کھنگالنا شروع کیا۔ یقین کریں وہاں بھی یہی لکھا تھا۔ اپنے تو مقدر کو لہسن لگ گئے۔ پوری جوانی وزن اٹھاتے، بیٹھکیں لگاتے، ڈنٹر پیلتے گزار دی۔ جہاں تھوڑا وقت زندگی میں آتا اسے باڈی بلڈنگ کی نظر کرنا بہترین لگتا۔ اب سمجھ میں آتا ہے کہ سارا وقت تو اسی چکر میں لگ جاتا تھا۔ جنہوں نے ڈولے پسند کرنا تھے ان غریبوں کی جستجو میں نکلا جاتا تو کچھ بنتا۔ 

نہیں یقین آ رہا؟ پہلے نیٹ پہ ڈھونڈیں پھر اگلی بات سنیں۔ اپنا تو ٹائم نکل گیا، یہ جو باقی ہیں ان کا کیا قصور ہے؟ جو ہمارے چھوٹے بھائی ہیں، بچے ہیں، انہیں ہم لوگ بتا تو سکتے ہیں نا یار کہ ابے یوتھیو، اس چالو چکر میں ٹائم نہ گلاؤ۔ یہ فلموں میں بیٹ مین، فلیش، سلمان خان اور سپائیڈر مین کو سکس پیک بنانے کے پیسے ملتے ہیں، ان کی مجبوری ہے، تم کس چکر میں اتنی جان ہلکان کر رہے ہو؟ اور اگر تم بھی یہی سمجھتے ہو کہ بچیاں ڈولے پسند کرتی ہیں تو ایک بار جا کے بچیوں سے ہی ہوچھ لو ظالمو۔

بعد ازاں فقیر نے بھی دستیاب مواقع سے کئی بار اس بارے میں استفادہ کیا اور شافی جواب پایا۔ عین وہی جواب جو ہیروئین نے ہیرو کو دیا تھا۔ کتنی خود غرض اور سیلف سینٹرڈ ہوتی ہیں لڑکیاں! 

دوسری غلط فہمی بیڈ بوائز کے بارے میں ہے۔ ہماری پوری نسل یہ سمجھتی رہی کہ سگریٹ پینا، چرس کے دھوئیں اڑانا، میلا بن کے پھرنا، پھٹی ہوئی پتلون پہننا، شلوار قمیص پہ شال کی بکل مار کے اداس شاعر کے جیسے مکھڑا نکال کے گھومنا، شرابی ترین ہونے کی پھڑ مارنا، منشیات پسند ہونا، الجھے بال اور بڑھی شیو کے گال، یہ سب کچھ لڑکیوں کو پسند آتا ہے۔ یہ بھی غلط فہمی تھی۔ اصل میں یہ لڑکوں کو پسند آتا ہے۔ کیوں کہ یہ سب کچھ کرنا آسان ہے، محنت کم لگتی ہے اور دل کو سمجھ بھی آتا ہے۔ مجھے خود کو پسند ہے۔

جس بندے میں کوئی بری عادت نہ ہو اس کے زندہ رہنے کا فائدہ اپنے دماغ کو تو نہیں سمجھ آتا کم از کم۔ لیکن افسوس، باقی امہ کا بھی یہی حال ہے۔ یہ خیالات اتنے کامن ہو چکے ہیں کہ مارکیٹ میں اس وقت دستیاب سارے مرد بیڈ بوائز ہیں۔ قسم سے اصلی نسلی برانڈڈ شریف بچہ ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ وہ بچہ جس کا حلیہ چیخ چیخ کے پکارے کہ وہ شریف ہے، نہیں ملتا! تو اس وقت اصل میں جو کمی ہے وہ گڈ بوائز کی ہے۔ ایسے سائیڈ میں سے مانگ نکالی ہو، کریز والی جینز ہو، نیچے کالے چمکتے بوٹ ہوں، قمیص پتلون کے اندر ہو، سینے کا بٹن نہ کھلا ہو، سگریٹ، چرس، میلے پن اور برے خیالات سے دور ہو، ایسا بندہ آج کل نہیں ملتا۔

کوشش کر کے یہ بات اپنے بچوں کو سمجھائی جا سکتی ہے کہ بیٹا ہم لوگ جیکی شیروف، سنجے دت کو دیکھ کے بڑے ہوئے تھے تم جسٹن ٹروڈو یا شہزادے ولیم سے کچھ انسپریشن لے لو۔ ہمارے پاس انٹرنیٹ نہیں تھا تمہارے پاس تو ہے، تم اسی پہ گرومنگ لیکچرز دیکھ کے قابل قبول حلیہ بنا لو۔ وہ آگے نوکری میں بھی کام آئے گا، لیکن خیر، لکڑی اور جوان کو زیادہ سیدھا کیا جائے تو ٹوٹنے کا چانس زیادہ ہوتا ہے، چھوڑس مڑا، اگے جلنے آں۔ 

اب وہ مرحلہ آ گیا جس کی وجہ سے آپ یہاں تک آئے ہیں۔ میں بھی آ جاتا اگر آپ کی جگہ ہوتا، سیکس لفظ ایسا ہے کہ بندہ اکیلا ہو اور یہ کہیں لکھا نظر آ جائے تو انے وا دوڑ پڑتا ہے۔ اس معاملے میں گورے کالے کی بھی کوئی تمیز نہیں، وہاں بھی یہی ہوتا ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا گناہ میں اٹریکشن ہوتی ہے؟ یا جو کام منع ہے وہ زور سے آتا ہے؟

سیدھی بات ہے کہ مخالف جنس میں سب کی دلچسپی ہوتی ہے۔ انسان، جانور، کیڑے مکوڑے سب میں ہے اور فطری ہے۔ آپ اور میں انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ نہیں ہوئے، قدرتی طریقے سے پیدا ہوئے ہیں، تو ہمارے بزرگوں میں بھی ہو گی۔ بچوں کو بھی اس چیز سے دور رکھنا ممکن نہیں۔ پہلے زمانے میں شادیاں ہوتی تھیں تو قریبی رشتے دار یا دوست اور سہیلیاں لمبے لمبے لیکچر دیتے تھے کہ ایسے ہو گا، ویسے ہو، بچے اس وقت بھی سیانے ہوتے تھے۔ ریلوے سٹیشن پہ 'سہاگ کی پہلی رات اور 'کوک شاستر' بیسٹ سیلر ہوتی تھی، بچے آج بھی آپ سے آگے ہیں۔

ان کے پاس انٹرنیٹ ہے۔ وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ بات صرف انہیں اعتماد اور پرسکون ماحول دینے کی ہے۔ جتنا زیادہ انہیں دبائیں گے، ان پر چیک رکھیں گے، لکھوا لیں کہ وہ اتنا زیادہ اتھرے ہو کے سامنے آئیں گے۔ جتنا اس معاملے کو نارمل سطح پہ رکھیں گے، ان کی بغاوت کم سے کم ہو گی۔ بغاوت سے مراد یہ ہے کہ پورن اور مخالف جنس کی طرف وہ نسبتا کم شدت سے راغب ہوں گے۔ ان کا دماغ باقی معاملات پر سوچ بچار کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کی عام ترین مثال یہ ہے کہ پرانے زمانے میں صرف پاؤں دیکھ کر بزرگ لوگ عاشق ہو جاتے تھے، شعر کہنے لگتے تھے، سوگ طاری ہو جاتا تھا، آج ہمارے بچے کو ایجوکیشن میں پڑھتے ہیں، سالم لڑکے لڑکیوں سے بات کرتے ہیں، فلموں ڈراموں میں ہر وقت شادی، بیاہ، طلاق دیکھتے ہیں پھر بھی اس شدت سے عاشق مزاج نہیں ہوتے کہ ایک پاؤں یا ہاتھ کی جھلک پہ نثار ہونے کو تیار ہو جائیں۔ واٹس ایپ پہ 'ٹوٹے' آپ کو بھی کوئی بھولا بسرا دوست بھیج دیتا ہو گا، انہیں بھی غلطی سے آ سکتے ہیں۔ کبھی بچے کا فون پکڑ لیں تو اسے سزا مت دیں۔ اگنور کر دیں یا سمجھا دیں کہ ڈیلیٹ کر دیا کرو۔

اسی طرح دیگر معاملات میں ہے۔ جنس سے متعلق کچھ بھی ان ایکسپیکٹڈ نہیں ہوتا، صدیوں سے چلا آ رہا ہے، ہمیشہ چلے گا، زیادہ روکیں گے تو بچے یا حکیموں کے پاس جائیں گے یا ہسٹیریا کے مریض ہوں گے۔ ہارمون اپنا کام کرتے رہیں گے آپ کرتے رہیں اپنا کام۔  

یہ پیراگراف بھاری تھا؟ آنکھیں بند کریں اور بچپن سے لے کر آج تک یاد کریں کہ پہلی بار پورن کب دیکھا تھا اور کہاں کہاں دل لگایا تھا اور کہاں کہاں لگ بھی گیا تھا؟ شرمندہ نہ ہوں۔ جیسے بال سفید ہونا زندگی کا حصہ ہے ویسے وہ سب کچھ بھی زندگی کا حصہ تھا۔

آپ کے پاس مواقع کم تھے، آپ کی آزمائش کم تھی۔ آپ کے بچے کیبل اور انٹرنیٹ دور کے بچے ہیں۔ ان کے پاس مواقع زیادہ ہیں، ان کی آزمائش بھی زیادہ ہے۔ ان کی کھنچائی کم کریں، اپنی والی محرومیاں ان کے مقدر میں نہ لکھیں۔ باقی آپ سمجھ دار ہیں، راہ پیا جانے یا وا پیا جانے! 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ