البغدادی دنیا کے سب سے مطلوب دہشت گرد کیسے بنے؟

البغدادی کی ہلاکت سے داعش مزید کمزور ہو جائے گی کیوں کہ وہ نہ صرف اس تنظیم کے سربراہ تھے، بلکہ اس کے روحانی پیشوا، نظریہ ساز اور شدت پسندی کی علامت بھی تھے۔

پانچ جولائی، 2014 کو جاری ہونے والی اس ویڈیو میں داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی عراقی شہر موصل کی ایک مسجد میں خطبہ دے رہے ہیں(اے ایف پی)

جولائی 2014 میں جب داعش نے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کیا تو اس تنظیم کے رہنما نے پہلی بار منظرِ عام پر آ کر موصل کی جامع مسجد نوری میں خطبہ دیتے ہوئے خود کو خلیفہ اور تمام مسلم امہ کا روحانی اور سیاسی سربراہ قرار دے دیا۔

یہ ابو بکر البغدادی تھے جن کی عمر اُس وقت 43 برس تھی۔

یہ واقعہ دنیا بھر میں سنسنی کی لہر دوڑا گیا کیوں کہ گذشتہ چند ماہ میں داعش نے جس تیزی سے کامیابیاں حاصل کی تھیں، ان سے بظاہر ایسا نظر آ رہا تھا کہ یہ انتہا پسند تنظیم جلد ہی مشرقِ وسطیٰ کے بڑے حصے پر غلبہ قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

البغدادی کے پیغام میں ایسی مقناطیسی کشش تھی کہ نہ صرف قریبی مسلمان ملکوں سے لوگ داعش میں شامل ہونے لگے بلکہ مغربی ملکوں میں پرُتعیش زندگیاں گزارنے والے ہزاروں مرد و خواتین بھی ان کے ہاتھوں بعیت کرنے عراق اور شام کا رخ کرنے لگے۔

البغدادی 1971 میں عراق میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا اصل نام ابراہیم عواد ابراہیم تھا۔ ان کی تعلیمی اہلیت کے بارے میں متضاد باتیں گردش میں ہیں، لیکن اتنا کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے دینی تعلیم حاصل کی تھی۔

2003 میں عراق پر امریکی حملے کے بعد البغدادی نے امریکی قبضے کے خلاف لڑنے والی جنگجو تنظیموں میں شمولیت اختیار کر لی۔ اگلے برس انہیں امریکی فوج نے پکڑ لیا اور بدنامِ زمانہ ابو غریب جیل میں قید رکھا۔ تاہم انہیں دس ماہ بعد رہا کر دیا گیا، کیوں کہ وہ خطرناک تصور نہیں کیے گئے تھے۔

اس دوران القاعدہ بھی عراق میں سرگرم تھی۔ پہلے اس کے مقامی سربراہ الزرقاوی تھے، جب وہ امریکی حملے میں مارے گئے تو المصری،القاعدہ فی عراق کے نئے سربراہ مقرر ہو گئے۔

المصری نے القاعدہ سے الگ ہو کر ایک نئی تنظیم دولتِ اسلامیہ فی عراق کی داغ بیل ڈالی اور ایک اور شدت پسند عمرالبغدادی اس کے نئے رہنما مقرر کیے گئے۔

تاہم 2010 میں عمرالبغدادی اور المصری دونوں امریکی حملے میں ہلاک ہوئے تو ابو بکر البغدادی دولت اسلامیہ فی عراق کے نئے سربراہ مقرر ہو گئے۔ اپریل 2013 میں ایک اور جنگجو تنظیم النصرہ فرنٹ بھی دولتِ اسلامیہ میں شامل ہو گئی۔

 اس سے دو برس قبل 2011 میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں امریکی حملے کے دوران موت کے بعد القاعدہ کا زور ٹوٹ گیا تھا اور یوں داعش کے لیے میدان خالی ہو گیا اور اس نے تیزی سے عراق اور شام میں لڑنے والے شدت پسندوں میں مقبولیت حاصل کر لی۔

اپنے عروج کے دور میں داعش کے پاس عراق اور شام کا کئی لاکھ مربع کلومیٹر کا علاقہ موجود تھا ،جس میں ایک کروڑ کے لگ بھگ افراد آباد تھے۔ ان میں 40 ہزار افراد وہ تھے جو دوسرے ملکوں سے اس مبینہ خلافت کا حصہ بننے کے لیے آئے تھے۔

یہی نہیں بلکہ اس تنظیم کی شاخیں کئی دوسرے ملکوں میں بھی کھل گئیں اور ان میں انتہا پسند شامل ہونے لگے۔

2014 داعش کے لیے کامیابیوں کا سال تھا۔ اس دوران انہوں نے پہلے شامی شہر رقہ پر قبضہ کر کے اسے اپنا دارالخلافہ مقرر کیا اور چند ماہ کے اندر اندر عراقی شہر موصل اور تکریت پر بھی اپنا تسلط قائم کر دیا۔

ان شہروں سے داعش کے ہاتھ اربوں ڈالرز لگے اور وہ دنیا کی مال دار ترین شدت پسند تنظیم بن گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

داعش نے سنجر اور زومار میں صدیوں سے آباد یزیدی مذہب کے لوگوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اندازہ ہے کہ تقریباً پانچ ہزار یزیدی اس دوران مارے گئے جب کہ ان کی ہزاروں عورتوں کو کنیز بنا لیا گیا۔

 2014 کے اواخر میں امریکہ نے اپنی توجہ داعش پر مرکوز کر دی اور ان کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔ جواباً داعش نے یورپی ملکوں میں حملے کیے۔ نومبر 2015 میں پیرس میں حملے 130 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔

اگلے برس امریکی سرپرستی میں عراقی فوجوں نے داعش کے خلاف کامیابیاں حاصل کرنا شروع کر دیں اور انہیں کئی شہروں سے پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا۔

حتیٰ کہ جولائی 2017 میں عراقی فوج نے موصل دوبارہ حاصل کر لیا جب کہ کرد جنگجو تنظیم نے رقہ شہر واگزار کرا لیا۔

اس دوران عراق، شام، ترکی، یورپی ملکوں اور پاکستان میں کئی ایسے حملے ہوئے جن کی ذمہ داری داعش نے قبول کی، تاہم اسے عراق اور شام میں پسپائی کا سامنا تھا۔ جلد ہی شام اور عراق کے تمام بڑے شہر اور قصبے ان کے ہاتھ سے نکل گئے اور داعش کے جنگجو تتر بتر ہو گئے۔

حالیہ برسوں میں کئی مرتبہ البغدادی کی ہلاکت کی خبریں سامنے آئیں مگر بعد میں وہ غلط ثابت ہوئیں۔

دسمبر 2018 میں امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ داعش کو شکست ہو گئی ہے اس لیے شام سے امریکی فوجیں نکال لی جائیں گی۔

اسی سال اپریل میں البغدادی نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں انہوں نے دشمن طاقتوں سے لڑنے کا عزم ظاہر کیا۔

تاہم 27 اکتوبر کو امریکہ نے تصدیق کر دی ہے کہ البغدادی ہلاک ہو گئے ہیں۔

البغدادی کی ہلاکت سے داعش مزید کمزور ہو جائے گی کیوں کہ وہ ناصرف اس تنظیم کے سربراہ تھے، بلکہ اس کے روحانی پیشوا، نظریہ ساز اور شدت پسندی کی علامت بھی تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا