تڑیوں سے ترلوں تک

شیخ رشید کا بیان عدلیہ سمیت ان تمام حلقوں کی توجہ کا مرکز ہونا چاہیے جو سب کچھ کرنے کے باوجود اس بناوٹ پر قائم ہے کہ نواز شریف کے ساتھ بننے والی صورت حال قدرتی و حادثاتی ہے۔

اگست 2014 میں  پی ٹی آئی کے دھرنے کے دوران عمران خان اور    شیخ رشید مشاورت کرتے ہوئے (اےایف پی)

شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ ان کو علم تھا کہ نواز شریف ملک سے باہر چلے جائیں گے۔ ان کا فرمانا ہے کہ وہ کب سے قوم کو سمجھا رہے تھے کہ اکتوبر، نومبر اور دسمبر کے مہینے انتہائی اہم ہیں۔

انہوں نے اس امر کی یاد دہانی بھی کروائی کہ نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دینے کے بارے میں ان کے عمران خان کو دیا قیمتی مشورہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ یعنی موصوف یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو چھ ماہ پہلے پتہ چل گیا تھا کہ اس سال کے آخری عشرے میں نواز شریف ایک موذی مرض کا شکار ہوں گے۔ ان کے خون کے خلیے تشویش ناک حد تک گر جائیں گے اور ہاتھ پاؤں پھولنے کے بعد انتظامیہ اور مقتدر حلقے نواز شریف کو باہر بھجوانے کے تمام اہتمام کریں گے۔

اسی طرح شیخ صاحب عدالتوں سے چٹ درخواست، پٹ ضمانت سے بھی واقف تھے اور ان کو یہ بھی پتہ تھا کہ کچھ تامل اور تعطل کے بعد مقتدر حلقے مریم نواز کو بھی نواز شریف کے ساتھ بھجوانے کا بندوبست کر لیں گے۔

 یا پھر پنڈی بوائے ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ نواز شریف کا ملک سے باہر جانا طے پا گیا تھا۔ صرف ایک ایسا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت تھی جس سے کام بھی ہو جائے اور بچی کچھی عزت بھی ضائع نہ ہو۔ دونوں صورتوں میں شیخ رشید کا بیان عدلیہ سمیت ان تمام حلقوں کی توجہ کا مرکز ہونا چاہیے جو سب کچھ کرنے کے باوجود اس بناوٹ پر قائم ہے کہ نواز شریف کے ساتھ بننے والی صورت حال قدرتی و حادثاتی ہے۔

ان کی ضمانت آزاد عدلیہ کے بہترین کردار کی غمازی کرتی ہے۔ جس کے تحت معزز جج گدی سے پکڑتے بھی ہیں اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے سرشار ہو کر شعر و شاعری کرتے ہوئے ملزمان کو جان بچانے کی سہولت بھی مہیا کرتے ہیں۔

لیکن شیخ رشید کے دعووں کو کون اہمیت دے گا؟ یہاں پر تو سب کو اپنی پڑی ہے۔ معلومات کے مطابق ہفتوں کی طویل تکلیف اور گرتی ہوئی صحت کی رپورٹس نیب انتظامیہ اور انتظامیہ کو چلانے والی بے چہرہ اشرافیہ کو پہنچا دی گئیں تھیں۔ وزیر اعظم عمران خان سمیت سب لوگوں کے سامنے سرکار کی طرف سے بنائے ہوئے میڈیکل بورڈز کی وہ رپورٹ بھی موجود تھیں جو واضح انداز سے نواز شریف کی متعدد بیماریوں سے چور جسم و جان کے علاج کے لیے ہسپتال میں داخلے کی تجویز دے رہی تھیں۔ علاج معالجے کے تمام طبی تجزیئے ریکارڈ کا حصہ بننے سے پہلے مختلف جگہوں پر فیصلہ ساز قوتوں کے سامنے رکھے جاتے رہے۔ اس پر سوچ و بچار ہوتی رہی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ نواز شریف جس کی ہر ایک سرگرمی فلم بند ہوتی ہے، جس کے کھانوں سے لے کر سرگوشیوں میں کی گئیں باتیں تفصیل کے ساتھ ریکارڈ کی جاتی ہیں، معالجے کی اتنی اشد ضرورت کا شکار ہوں اور کسی کو اس کا علم بھی نہ ہو؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بہرحال اب بھی اس گھمبیر طبی بحران کو اس پرانے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بطور ذریعہ استعمال کیا جا رہا ہے جس کا حصول ابھی تک ممکن نہ ہو سکا تھا۔ یعنی نواز شریف اور مریم نواز کو پاکستان سے باہر نکالنا۔ اس تحریر کے مرتب ہونے تک تو خبر یہ تھی کہ اتوار کی صبح کو میاں محمد نواز شریف کو ملک سے بھجوانے کے پیکیج میں شہباز شریف اور مریم نواز کا نام بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ہونے والی گھنٹوں پر محیط تمام کاوشیں نواز شریف کو ملک سے باہر جا کر علاج کرانے کی استدعا کو ماننے پر مجبور نہ کر پائیں۔

نواز شریف کے خاندان کے ہر فرد کو اس کار خیر میں حصہ ڈالنے کے جنتی اور انسانی پہلوؤں سے لیس کر کے ان کے پاس بھیجا گیا مگر ان کی ہٹ دھرمی قائم رہی۔ اگر نواز شریف ملک سے باہر جاتے ہیں تو ان کو اس پر مائل کرنے میں سب سے اہم کردار مریم نواز کا ہوگا۔ جو ان کی چہتی بیٹی بھی ہے اور ان کے برابر استقلال سے کھڑے ہو کر اب تک ملک سے باہر جانے کے راستے میں اپنے والد کے بعد دوسری بڑی رکاوٹ بنی رہی ہے۔ مگر اس وقت ماں کی وفات کے حزن و ملال میں ڈوبنے کے بعد باپ کو بستر مرگ پر دیکھ کر یقینا جذباتی طور پر علاج معالجے کے لیے باہر جانے پر مریم نواز کی رضا مندی حیران کن نہیں ہو گی۔

یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ریاست اپنی تمام تر قوت کو ایک مریض کو ملک سے باہر بھیجنے پر صرف کر رہی ہے لیکن اس کاوش کا نتیجہ مریض کی اس بیٹی کے ہاتھ میں ہے جو ریاست کے موجودہ طاقتور حلقوں کی نظر میں قابل نفرت شخصیت ہے۔

ایک اور ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ میاں محمد نواز شریف کا ملک سے نہ جانے پر اصرار وزیر اعظم عمران خان کے موقف جیسا ہی ہے۔ اگرچہ دونوں کے مقاصد اس حوالے سے قطعا مختلف ہیں۔ نواز شریف علاج کے لیے ملک سے باہر نہ جا کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی طرف سے سیاسی مزاحمت ذاتی مفاد کے حصول کا بھاؤ تاؤ نہیں تھا۔ وہ اپنی پارٹی کے مضبوط اراکین اور کارندوں کو یہ پیغام نہیں دینا چاہتے کہ وہ ملک سے کسی خاموش معاہدے کے تحت گئے ہیں۔

عمران خان اپنی نیک خواہشات والے ٹویٹ کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ ایک صحت مند نواز شریف ملک کے اندر یا لندن میں ان کے لیے ایک شدید سیاسی خطرہ بنا رہے گا۔ اور ویسے بھی نیب کے ذریعے اپنے سیاسی مخالف کی بدترین درگت بنتے دیکھ کر وہ جو سکون حاصل کرتے ہیں نواز شریف کے ملک سے باہر جانے کے بعد ختم ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ عمران خان کے لیے نواز شریف کا احتساب وہ واحد معاملہ رہ گیا ہے جس پر انہوں نے ابھی تک یو ٹرن نہیں لیا اور اس کے باوجود کہ انہوں نے یو ٹرن کی افادیت سے متعلق ایک باقاعدہ فلسفہ قوم کے سامنے رکھا ہے وہ نواز شریف کو ملک سے بھیجنے میں شدید ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔

اس معاملے پر ان کی اپنے مرشدوں سے بحث بھی ہوتی رہی ہے۔ مگر پھر ہر مرتبہ مرید پیر کو زیر نہیں کر سکتا۔ اب پیرانہ ہدایت یہی صادر ہوئی ہے کہ نواز شریف کو ملک میں اس حالت میں روکنا بڑے بحران کا باعث بن سکتا ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا عمران خان کو یہ ہدایت قبول کرنا ہو گی۔

اگر نواز شریف اپنے علاج کے لیے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں تو ان کی غیر موجودگی میں پارٹی کی غیر محسوس مزاحمت میں یقینا کمی آئے گی۔ سوشل میڈیا اور کرائے پر دستیاب تجزیہ نگار یہ ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کریں گے کہ یہ سب کچھ ایک ڈیل کے تحت کیا گیا ہے۔ شیخ رشید دوبارہ سے اپنے کئی بار دہرائے ہوئے بیانات دہرائیں گے اور باور کروائیں گے کہ اس بیماری کا تعلق سیاست سے ہے طب سے نہیں۔

ظاہر ہے میڈیکل رپورٹس اور علاج کی سہولت کے بارے میں حتمی فیصلہ نواز شریف اور ان کی بیٹی نے ان تمام پہلووں کے پیش نظر ہی کرنا ہے۔ ان کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ منتخب وزیر اعظم پھانسی پر لٹکے، جلسہ گاہ میں مارا جائے، سڑک پر قتل ہو یا جیل کی سڑاند اس کو قریب مرگ کر دے اس ملک میں کچھ تبدیل نہیں ہوتا۔ قربانی، عزم، مقصد، جمہوریت، آئین، انسانیت، غیرت اور ان جیسے دوسرے الفاظ ان عمر رسیدہ لوگوں کی طرح ہیں جو گھروں میں بزرگ کا درجہ رکھنے کے باوجود غیر ضروری بوجھ سمجھے جاتے ہیں۔

ان کی عزت بس ایک رسمی سلام تک محدود ہے جو ان کے قریب سے گزرنے والا مجبوری میں ان کی طرف ایک خیرات کے طور پر بھیج دیتے ہیں۔ ایسے نظام میں کون یاد رکھے گا کہ کس نے کیا کشت کاٹا؟ اور کیا جہدوجہد کی؟ لیکن پھر نواز شریف کے پاس کچھ تو ایسا ہو گا کہ ان کو تڑیاں لگانے والے اب منت اور ترلے کر رہے ہیں۔ یقینا حتمی عزت اور ذلت کا مالک اللہ تعالی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ