خواتین سے ’پاک‘ آزادی مارچ جاری

جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے آزادی مارچ میں خواتین کو شریک نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

اسلام آباد کے لیے روانہ ہونے والے قافلوں  میں صرف مرد ہی موجود ہیں۔(اے ایف پی)

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے آزادی مارچ کے تحت ملک کے مختلف حصوں سے قافلے اتوار کو روانہ ہوئے، جو 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں حکومت مخالف احتجاج کریں گے۔

روانہ ہونے والے قافلوں کو دیکھیں تو ان میں اپوزیشن جماعتوں کی خواتین کارکنان کہیں نظر نہیں آتیں اور فی الحال قافلوں میں صرف مرد ہی موجود ہیں۔

بتایا جا رہا ہے کہ آزدی مارچ کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق ہوا ہے کہ خواتین کو مارچ میں شریک نہیں کیا جائے گا۔

اس حوالے سے جے یو آئی ف کے صوبائی ترجمان عبدالجلیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جہاں مرد موجود ہوں وہاں خواتین کے آنے کی کیا ضرورت ہے؟ خواتین کی نمائندگی مرد کر رہے ہیں اور یہی کافی ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا دینی مدارس کی طالبات بھی جلسے میں شرکت نہیں کریں گی؟ تو ان کا جواب تھا: ’خواتین روزہ رکھیں اور مارچ کی کامیابی کے لیے دعا کریں۔ انہیں مارچ میں شرکت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور صوبائی ترجمان اختیار ولی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ مارچ میں شرکت کرنے والی تمام سیاسی پارٹیوں میں اس حوالے سے اتفاق ہے اور ’ہم نے اپنے خواتین ونگ کو بتا دیا ہے کہ پارٹی خواتین مارچ میں شرکت نہ کریں۔‘

اختیار ولی نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ’ہم پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے جیسا ماحول نہیں بنانا چاہتے جہاں غیر اخلاقی حرکتیں کی گئیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ابھی تو مارچ شروع ہوا ہے اور سفر کے دوران خواتین کارکنوں کے لیے الگ سے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے لیکن اگر دھرنا طول پکڑے گا تو خواتین کے لیے الگ پردے کے انتظام کا سوچا جا سکتا ہے۔‘

اختیار ولی کے مطابق: ’اسلامی تعلیمات بھی مرد اور خواتین کے مخلوط اجتماع سے روکتی ہیں، اس لیے اگر کوئی انتظام ہوگا بھی تو پردے میں ہوگا۔‘

جے یو آئی ف کی خواتین اس فیصلے پر کیا کہتی ہیں؟

ریحانہ اسماعیل خیبر پختونخوا اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشست پر جے یو آئی ف کی رکن ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اس فیصلے سے خوش ہیں کیونکہ اس طرح کے اجتماعات میں خواتین کی شرکت سے عورتوں کو زیادہ تکلیف پہنچتی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’مرد جسمانی طور پر زیادہ مضبوط ہوتے ہیں جبکہ خواتین کمزور ہیں، اس لیے خواتین کو اس طرح کے پروگراموں میں شرکت سے دشواری ہوتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ایسا بالکل نہیں ہے کہ ان کی پارٹی میں خواتین کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ ان سے مختلف معاملات میں رائے لی جاتی ہے۔

 لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ یا دوسری خواتین ارکان کو اس مارچ کے حوالے سے مشاورتی عمل میں شامل کیا گیا تھا؟ تو انہوں نے نفی میں جواب دیتے ہوئے بتایا کہ انہیں میڈیا سے پتہ چلتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ ’میڈیا رپورٹس کو دیکھ کر پارٹی خواتین چاہیں تو اپنی رائے پارٹی کو دے سکتی ہیں۔‘

دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کی ذیلی تنظیم نیشنل یوتھ آرگنائزیشن کی خاتون رہنما پلوشہ عباس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جے یو آئی ف اور عوامی نیشل پارٹی کے نظریات الگ الگ ہیں۔ ان کی پارٹی خواتین کی جلسے میں شرکت کے خلاف فیصلہ نہیں کرسکتی۔ ابھی تک پارٹی سے ایسی کوئی ہدایات نہیں ملیں کہ پارٹی کی خواتین مارچ میں شرکت نہیں کریں گی۔

پشاور سے آزادی مارچ کے تحت اسلام آباد کے لیے روانہ ہونے والے جے یو آئی ف کے کارکن (اے ایف پی)


پلوشہ عباس کے مطابق: ’ہمارے لیڈر اسفند یار ولی خان خواتین کو جلسے میں جانے سے روکنے کا فیصلہ کیسے کرسکتے ہیں؟ ہمارے رہبر باچا خان نے اُس زمانے میں عورتوں کو سیاست میں آنے کی ترغیب دی تھی۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’شاید مارچ میں خواتین کے لیے مناسب انتظامات موجود نہ ہوں کیونکہ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ سندھ سے نکلا ہوا قافلہ کب تک اسلام آباد پہنچے گا۔‘

اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی خیبر پختونخوا کی رکن صوبائی اسمبلی نگہت اورکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چونکہ مارچ کی قیادت جے یو آئی ف کر رہی ہے اور ان کی خواتین کو شرکت سے منع کیا گیا ہے تو ظاہر ہے کہ ہمارے بھی صرف مرد ہی جے یو آئی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کریں گے اور خواتین جلسے میں شرکت نہیں کریں گی۔

نگہت اورکزئی کے مطابق: ’ذاتی طور پر مجھے فیصلے پر تحفظات ہیں کیونکہ جس طرح کے مسائل  کا سامنا مردوں کو ہے، ایسے ہی خواتین کو بھی حکومت سے مسائل ہیں، لہذا انہیں شرکت کا موقع ملنا چاہیے تھا۔‘

نگہت اورکزئی کے مطابق چونکہ یہ جے یو آئی ف کا فیصلہ ہے، لہذا پیپلز پارٹی کے لیے مشکل ہوگا کہ وہ خواتین کو مارچ میں شرکت کے لیے کہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان