بلوچستان یونیورسٹی میں وہ آٹھ کیمرے کس نے لگائے؟

بلوچستان ویڈیو سکینڈل کے حوالے سے سینیٹ قائمہ کمیٹی کے ایک اجلاس میں شریک طالبہ نے انکشاف کیا کہ صوبے کی صرف ایک یونیورسٹی میں انسداد ہراسانی کمیٹی ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی ویڈیوسکینڈل میڈیا پر آنے کے بعد قومی سطح پر اہمیت اختیار کر چکا ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی میں خفیہ کیمروں سے ویڈیوز بنا کر طلبہ کو بلیک میل کرنے کا سکینڈل سامنے آنے کے بعد تحقیقات ابھی جاری ہیں لیکن اس سوال کا جواب ابھی تک نہیں مل سکا ہے کہ آٹھ خفیہ کیمرے کس کے کہنے پر لگائے گئے تھے۔

معاملے کو مدنظر رکھتے ہوئے 25 اکتوبر کو ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن(ڈی آر ایف)، سول سوسائٹی کے ارکان اور طلبہ نمائندے تعلیمی اداروں میں طلبہ کی پرائیویسی ، نگرانی اور ہراسانی کے معاملات پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں شریک ہوئے۔

ڈی آرایف کی چیئرپرسن نگہت داد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اجلاس میں یونیورسٹی آف بلوچستان کے قائم مقام وائس چانسلر اور طلبہ کے نمائندوں کو مطالبات پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ یونیورسٹی میں نگرانی کے لیے 92 کیمرے لگائے گئے تھے لیکن بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر ہونے والی تحقیقات کے دوران کُل آٹھ خفیہ کیمرے ملے، جن کے ذریعے طلبہ کی مرضی کے بغیر ان کی ریکارڈنگ کی گئی تھی۔ اس فوٹیج کے ذریعے انتظامیہ نے طلبہ کو مبینہ طور پر بلیک میل کیا۔

سینیٹرز نے اس صورت حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ بالخصوص وی سی ڈاکٹر اقبال جاوید سمیت ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ ڈاکٹر اقبال جاوید طالبات کو بلیک میلنگ کرنے کیس سامنے آنے کے بعد مستعفی ہو چکے ہیں۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں کام کی جگہ پرہراسانی کے خلاف تحفظ ایکٹ اور پالیسی گائیڈلائن کے تحت کوئی کمیٹی نہیں بنائی گئی۔

نگہت داد کہتی ہیں کہ یہ سکینڈل تو اب سامنے آیا ہے مگر ڈی آر ایف کافی عرصے سے اس بات پر زور دے رہی ہے کہ خفیہ کیمرے یا نگرانی کی دوسری ٹیکنالوجی کے استعمال اور پرائیویسی قائم رکھنے کے معاملے میں قواعدوضوابط کیا ہیں؟

انہوں نے کہا حال ہی میں سینما گھروں اور سیف سٹی پراجیکٹ کی ویڈیوز لیک ہوئیں۔ ’یہاں یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ آپ نے سی سی ٹی وی کیمرے تو لگا دیے لیکن ان سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی حفاظت کا نظام وضع نہیں کیا، کس کو اس ڈیٹا تک رسائی حاصل ہے؟ اس کو رئیل ٹائم میں کون دیکھتا ہے؟ کون ریکارڈ کرتا ہے؟ کچھ عرصے بعد اس ڈیٹا کو ضائع کرنے کے ایس او پیز کیا ہیں؟‘

نگہت کے مطابق سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ جہاں کیمرے لگے ہوں وہاں ایک تختی نصب ہو کہ کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے۔

’سینما گھروں میں جانے والے کتنے لوگوں کو پتہ ہے کہ سکرین کے بالکل سامنے کیمرے لگے ہوتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں خفیہ کیمرے لگے ہیں مگر وہاں کی انتظامیہ ہی غلط کام میں ملوث ہو تو آپ کیا کریں گے؟‘

نگہت کے خیال میں خفیہ کیمروں کی جو نا جائز ریکارڈنگ ہے اس پر فوری ایکشن لیا جانا چاہیے۔ آگاہی مہم چلائی جائے کہ لوگوں کو پتہ ہو کہ رازداری ان کا قانونی حق ہے اور وہ کسی کو بھی یہ کہہ سکیں کہ آپ ہماری ویڈیو نہیں بنا سکتے۔

نگہت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر آپ کو محسوس ہو کہ آپ کی خفیہ ریکارڈنگ کی گئی ہے تو آپ کے پاس یہ حق ہونا چاہیے کہ آپ اسے کسی فورم پر جا کر چیلنج کر سکیں۔

’مگر افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں ابھی تک ایسا نظام موجود نہیں۔ جب ہم نے قائمہ کمیٹی میں اس مسئلے کو اٹھایا تو انہوں نے نہ صرف یونیورسٹی کے سکینڈل کو دیکھا بلکہ ڈیٹا پروٹیکشن قانون کا بل جو وزارت آئی ٹی میں پڑا ہے اس کے بارے میں بھی دریافت کیا کہ اس کی منظوری میں کیا رکاوٹ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نگہت مزید کہتی ہیں پاکستان کی 20 کروڑ کی آبادی ہے جہاں نجی اور حکومتی ادارے بغیر کسی پالیسی اور قانون کے، لوگوں کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرکے اس کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر اپنی مرضی سے اسے استعمال کرتے ہیں۔

’اس حوالے سے قانون آ بھی جائے تو کیا اس پر عمل درآمد کروایا جاسکےگا؟ ابھی جو بل سامنے آیا ہے اس میں صرف نجی اداروں کا ذکر ہے۔ نادرا اور سیف سٹی پراجیکٹ کو یہ کہہ کر نظرانداز کر دیا گیا کہ یہ ادارے قومی سلامتی سے متعلق ہیں اس لیے بل میں ان کا ذکر نہیں۔‘

انہوں نے کہا سوال یہ ہے کہ اگر حکومتی ادارے اس کے زمرے میں نہیں آتے تو پھر کون آتا ہے؟ آپ کا شناختی کارڈ بائیومیٹرک ہے آپ کو کچھ نہیں پتہ کہ آپ کا شناختی کارڈ نادرا میں کس کے پاس ہے؟

’جب ایک مسئلے کو لمبے عرصہ تک نظر انداز کردیا جائے تو پھر بات آپ کے تعلیمی اداروں تک پہنچ جاتی ہے جہاں خفیہ کیمروں کی فوٹیج کو لڑکے لڑکیوں کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان یونیورسٹی کی دو طالبات بھی شریک تھیں۔

ایک طالبہ نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں بہت زیادہ کنٹرولڈ ماحول ہے، وہاں خوف و ہراس کی فضا ہے، جس کی وجہ سے اس طرح کے واقعات لمبے عرصہ تک سامنے نہیں آتے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایسے معاملات میں ملوث تمام افراد کا احتساب ہونا چاہیے۔ ’یونیورسٹی کیمپس میں اسلحے پر پابندی لگائی جائے اور نگرانی والے کیمرے کیمپس کے بیرونی دروازوں تک محدود رکھے جائیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ نجی سکیورٹی اداروں کو جامعہ کی حفاظت کا کام سونپا جائے، تعلیمی اداروں میں فوری طور پرہراساں کرنے کے خلاف ایک کمیٹی تشکیل دی جائے اور اسے مناسب آزادی اور اختیارات سونپیں جائیں۔

انہوں نے بتایا بلوچستان کی صرف ایک یونیورسٹی میں انسداد ہراسانی کمیٹی ہے۔

کمیٹی کے اجلاس میں موجود بلوچستان یونیورسٹی کی دوسری طالبہ نے کہا کہ اس میں کون لوگ بیٹھے ہیں ؟ اس میں انتظامیہ کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ شکایت کمیٹی کے کسی رکن خلاف ہونے کی صورت میں کمیٹی اپنے رکن کے خلاف فیصلہ دے گی؟

نگہت کہتی ہیں کہ دیکھنا پڑے گا کہ انسداد ہراسانی کمیٹیوں کی تشکیل کون کر رہا ہے اگر تو وہ انتظامیہ کر رہی ہے تو وہ وہی لوگ لے کر آئیں گے جو ان کے موقف کو سپورٹ کریں گے۔ کمیٹیوں کی تشکیل ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کمیٹیاں بن جانا آسان ہے لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان میں کون لوگ شامل ہیں؟

کمیٹی کے اجلاس میں موجود تعلیمی اور سماجی شعبے کی کارکن عرفانہ ملاح نے کہا کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں صنفی برابری کو مدنظر رکھا جائے۔

اجلاس میں شریک سینیٹرعائشہ رضا نے بلوچستان یونیورسٹی کی انتظامیہ کے اقدامات کو مجرمانہ غفلت قرار دیا۔ انہوں نے ہراسانی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے قائم کمیٹیوں میں صنفی برابری کی ضرورت پر زور دیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان