نواز شریف کے امریکہ جانے کے قوی امکانات

سابق وزیراعظم ملک سے جانے پر راضی نہیں، تاہم شریف خاندان کے قریبی ذرائع کے مطابق ’مقتدر حلقے‘ چاہتے ہیں کہ وہ ملک سے چلے جائیں لہذا انہیں منانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

نواز شریف کے خون میں پلیٹ لیٹس کی کمی جس بیماری کی وجہ سے ہے اس کا علاج بظاہر پیچیدہ نہیں مگر نواز شریف کی دیگر بیماریوں کا ایک ساتھ علاج پلیٹ لیٹس کی تعداد بڑھانے میں پیچیدگی پیدا کر رہا ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

میڈیا پر چلنے والی خبروں کے مطابق سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے علاج کے غرض سے بیرون ملک جانے سے انکار کر دیا ہے اور وہ یہیں رہ کر اپنا علاج کروانا چاہتے ہیں، مگر پردے کے پیچھے رونما ہونے والے واقعات کچھ اور ہی بتا رہے ہیں۔

ایک طرف جہاں نواز شریف ملک سے باہر جانے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے، وہیں ملک میں موجود ’چند قوتیں‘ انہیں ملک سے بھیجنے کے لیے کوشاں ہیں۔

ن لیگ کے سینیئر ذرائع کے مطابق نواز شریف پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ علاج کے لیے باہر چلے جائیں اور اس دباؤ میں ان کے بھائی شہباز شریف کے علاوہ والدہ شمیم بیگم اور بیٹی مریم نواز پیش پیش ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار ارشد چوہدری نے چند دن پہلے خبر رپورٹ کی تھی کہ شہباز شریف اور نواز شریف کی والدہ کے علاوہ مریم نواز اپنے والد کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ علاج کے غرض سے باہر چلے جائیں۔

تاہم ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’پارٹی کے اندر فی الحال سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیرون ملک جانے سے متعلق کوئی بات نہیں ہورہی۔‘

نواز شریف کے خون میں پلیٹ لیٹس کی کمی جس بیماری کی وجہ سے ہے اس کا علاج بظاہر پیچیدہ نہیں مگر ان کی دیگر بیماریوں کا ایک ساتھ علاج پلیٹ لیٹس کی تعداد بڑھانے میں پیچیدگی پیدا کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے شریف خاندان ان کی صحت کے حوالے سے پریشان ہے اور انہیں ملک سے جانے کے لیے قائل کر رہا ہے۔

نواز شریف کو باہر کون بھجوانا چاہتا ہے؟

شریف خاندان کے علاوہ اور کون چاہتا ہے کہ نواز شریف ملک سے چلے جائیں؟ اس تناظر میں یہ بات تو طے ہے کہ وزیراعظم عمران خان بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی کو ’این آر او‘ نہیں دیں گے، مگر دوسری طرف ان کے اپنے وزرا مختلف پیغامات دیتے دکھائی دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہفتے کو نواز شریف کی عبوری ضمانت منظور کی  اُسی دن وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا ’نواز شریف کوعلاج کے لیے جو ریلیف ملا ہے، اس سے انہیں فائدہ اٹھانا چاہیے۔‘

اس کے علاوہ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کہہ چکی ہیں ’وزیراعظم (عمران خان) کے حکم پر نواز شریف کے لیے ایئر ایمبولینس تیار کھڑی ہے، وہ جہاں سے علاج کرانا چاہیں، جا سکتے ہیں، ہم ہر جگہ انہیں بھجوانے کو تیار ہیں۔‘

یہاں یہ امر دلچسپ ہے کہ نواز شریف کے ملک سے باہر جانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کا ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں نام ہے، جسے یا توعدالت یا پھر حکومت ہی نکال سکتی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کو ضمانت دیتے ہوئے فیصلے میں لکھا تھا کہ ’نواز شریف کا حق ہے کہ وہ ملک کے اندر یا باہر مرضی کا علاج کرانا چاہیں تو کرا سکتے ہیں۔‘

شریف خاندان کے قریبی ذرائع کے مطابق ’مقتدر حلقے‘ چاہتے ہیں کہ وہ ملک سے چلے جائیں اور اسی وجہ سے انہیں منانے کے لیے ان سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔ مقتدر حلقوں کے رابطوں پر وزیراعظم کے ترجمان ندیم افضل چن نے ایک سوال کے جواب میں کہا وہ مقتدر حلقوں کے ترجمان نہیں۔

نواز شریف کہاں جا سکتے ہیں؟

عام تاثر یہ ہے کہ اگر نواز شریف ملک سے باہر گئے تو وہ لندن اپنے بچوں کے پاس جائیں گے۔ مگر ان کی بیماری کے پیشِ نظر شریف خاندان میں یہ آپشن بھی زیر بحث رہا کہ انہیں لندن کی بجائے امریکہ جانا چاہیے کیوں کہ شریف خاندان کے مطابق امریکہ میں علاج کی سہولیات بہتر ہیں۔

نواز شریف سے روابط اور محرکات

گذشتہ چند دن میں نواز شریف کی بگڑتی ہوئی صحت کے حوالے سے سرکاری حلقوں میں بے چینی پائی گئی تھی اور زیر حراست نواز شریف کی زندگی کو لاحق خطرے کو حکومت کے لیے شدید مشکل سمجھا جا رہا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان جو نواز شریف کے کمرے سے ٹی وی اور ایئر کنڈیشنر تک اٹھوانا چاہتے تھے، وہ اپنے ہسپتال کے سینیئر ترین ڈاکٹر بھجوانے پر مجبور ہو گئے اور مریم نواز کو عدالتی انکار کے باوجود اپنے والد سے ملاقات کرنے کی اجازت دے دی گئی۔

شریف خاندان کے مطابق نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کی پیشکش پہلی دفعہ نہیں کی جا رہی۔ ماضی میں بھی تین مرتبہ نواز شریف کو ملک سے باہر جانے یا ملک سے باہر رہنے کی پیشکش ہو چکی ہیں اور انہیں کہا جاتا رہا ہے کہ وہ اور ان کی بیٹی سیاست سے کچھ عرصے کے لیے چھٹی لے لیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست