نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطل

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سزا معطلی سے متعلق درخواست کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیر اعظم کی ضمانت میں آٹھ ہفتے کی توسیع بھی کر دی۔

عدالت نے نواز شریف کو آٹھ ہفتوں بعد مزید ضمانت کے لیے پنجاب حکومت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے(اے ایف پی)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے منگل کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطل کرتے ہوئے انہیں آٹھ ہفتوں کے لیے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بنچ نے سابق وزیراعظم کی ضمانت طبی بنیادوں پر منظور کی، جس کا مقصد انہیں اپنی مرضی کے علاج کا مواقع فراہم کرنا ہے۔

تاہم عدالت نے نواز شریف کو آٹھ ہفتوں بعد مزید ضمانت کے لیے پنجاب حکومت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔

یاد رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نواز شریف کو گذشتہ سال دسمبر میں العزیزیہ کرپشن ریفرنس میں سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل پہلے سے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ گذشتہ ہفتے نواز شریف نے طبی بنیادوں پر سزا کی معطلی کے لیےدرخواست جمع کی تھی، جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں منگل (29 اکتوبر) تک عبوری ضمانت دی تھی۔

منگل کو درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے لوگوں سے کھچا کھچ بھرے کورٹ روم نمبر دو میں ہوئی۔

اس موقعے پر مسلم لیگ ن کے بڑی تعداد میں کارکنوں کے علاوہ مرکزی اور صوبائی رہنما راجہ ظفرالحق، خواجہ محمد آصف، پرویز رشید، امیر مقام، محمد زبیر وغیرہ شامل تھے۔

کمرہ ِعدالت کے دروازے پر اس وقت شدید نعرہ بازی ہوئی جب وزیر اعلیٰ پنجاب محمد عثمان بزدار وہاں پہنچے۔ کورٹ روم کے باہر موجود ن لیگ کے کارکنوں نے پاکستان تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان کے خلاف نعرے لگائے جبکہ عثمان بزدار کے ساتھ آنے والے تحریک انصاف کے حامیوں نے اپنے لیڈر کے حق میں نعرے بازی کی۔

مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے سب سے پہلے نواز شریف کی صحت سے متعلق ڈاکٹروں کا موقف معلوم کیا۔

سروسز ہسپتال سے آئے ہوئے میڈیکل بورڈ کے ایک رکن نے عدالت کو بتایا کہ آخری ٹیسٹ کے مطابق نواز شریف کے خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد تقریبا ً 30ہزار تھی۔

تاہم انہوں نے کہا پلیٹ لیٹس کی تعداد بڑھانے کے لیے دی جانے والی دوائیوں نے ان کے جسم میں دوسرے مسائل پیدا کر دیےہیں، جس کے باعث وہ علاج بند کرنا پڑا۔

ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم کی طبیعت کافی پیچیدہ ہے، جس کی وجہ ان کو ایک سے زیادہ لاحق عارضے ہیں۔

نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے عدالت کو بتایا کہ وہ گذشتہ 20سال سے نواز شریف کے معالج ہیں اور پہلی مرتبہ ان کی اتنی بری حالت دیکھی ہے۔

ڈاکٹر عدنان نے مزید کہا کہ نواز شریف کی عمر میں خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد اس طرح کم نہیں ہوتی جبکہ انہیں کوئی ایسی بیماری بھی نہیں جس سے خون کا یہ حصہ یوں ختم ہونا شروع ہو جائے۔ اس لیے انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ نواز شریف کے خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد کے کم ہونے کی کوئی دوسری وجہ ہو سکتی ہے۔ جس کی تشخیص ایک لمبا کام ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹروں نے ان کے مریض کے پورے جسم کا سکین کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی سہولت سروسز ہسپتال میں موجود نہیں اور مریض کوکسی دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جا سکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر اعلی ٰپنجاب عثمان بزدار بھی عدالت کے بلانے پر ججوں کے سامنے حاضر ہوئے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ ملکی تاریخ میں پہلے وزیر اعلیٰ ہیں جو صوبے میں جیلوں کا دورہ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ ابھی تک آٹھ جیلوں کا دورہ کر چکے ہیں، جیلوں کے اندر بہتر سہولیات کے لیے ان کی حکومت جامع اصلاحات تیار کر رہی ہے۔

عدالت کے سامنے دلائل پیش کرتے ہوئے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے استدعا کی کہ ان کے موکل کا کیس حکومت کو نہ بھیجا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں عدالت کا دروازہ اسی لیے کھٹکھٹانا پڑا کیونکہ حکومت اس سلسلے میں سرد مہری کا ثبوت دے رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی اہلکاروں کے بیانات کے مطابق وہ عدالت کا فیصلہ ماننے کو تیار ہیں لیکن حکومت خود ان کے موکل کو جیل خانہ جات سے متعلق قانون کے تحت ضمانت پر رہا کرنے کو تیار نہیں ۔

جج صاحبان اور وکیلوں کے درمیان اس معاملے پر لمبی بحث ہوئی کہ کسی قیدی کی سزا کسی بھی وجہ سے کون معطل کر سکتا ہے۔ ججوں کا استفسار تھا کہ یہ انتظامیہ کا کام ہے اور اس سلسلے میں پنجاب حکومت کو قانون کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔

جسٹس عامر فاروق نے ایک موقع پر کہا کہ یہ کام ہے تو انتظامیہ کا لیکن وہ کسی اور کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ نواز شریف اس وقت ہسپتال میں ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ سابق وزیراعظم کو جیل سے ہسپتال کس کے کہنے پر منتقل کیا گیا۔

انہوں نے خود ہی جواب دیتے ہوئے کہا کہ یقینا ًایسا وزیر اعلیٰ کے کہنے پر ہی ہوا ہو گا۔ اس سلسلے میں درخواست گذار کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ یہ اختیار پنجاب حکومت کے پاس ہے۔

دوسری طرف نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ جس عدالت نے سزا دی ہے، درخواست گذار کو اسی سے رجوع کرنا ہو گا۔

خواجہ حارث نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا ان کے موکل کی طبیعت اتنی خراب ہے کہ یہ صورت حال ان کی زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، سروسز ہسپتال لاہور میں بہت ساری سہولتیں موجود نہیں جن کی نواز شریف کو اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپنی مرضی کی جگہ اور ڈاکٹر اور اپنی مرضی کا علاج کرانا کسی بھی انسان کا حق ہے اور ان کے موکل بھی اس کے حق دار ہیں۔

اس سلسلے میں انہوں نے پاکستان اور بھارتی سپریم کورٹس کے فیصلوں کے حوالے بھی دیے۔ انہوں نے کہا حکومت کی جانب سے ریلیف نہ ملنے کی صورت میں ان کا موکل عدالت کے پاس آیا ہے اور اس لیے اب عدالت کو ہی اسے ریلیف دینا ہو گا۔

آج کے عدالتی فیصلے پر وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ وفاقی حکومت فیصلے کو قبول کرتی ہے۔ ’ عدالت نے ڈاکٹرز کے بورڈ اور نیب کے نقطہ نظر کو دیکھ کر فیصلہ دیا۔‘

انہوں نے کہا نواز شریف کی طرف سے بیرون ملک جانے کی درخواست عدالت میں نہیں آئی۔

’ہم پُرامید ہیں کہ میاں صاحب اس دوران اپنے علاج پر توجہ دیں گے، ہم صحت مند نواز شریف کو اپنا سیاسی حریف دیکھنا چاہتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان