’خواتین کو آزادی مارچ سے دور رکھنا غیر ضروری مشقت سے بچانا ہے‘

جمعیت علمائے اسلام ف کی رکن قومی اسمبلی شاہدہ اختر علی نے دعویٰ کیا ہے کہ لیڈر شپ کی طرف سے خواتین کو آزادی مارچ میں شرکت کرنے یا نہ کرنے سے متعلق کوئی ہدایات نہیں دی گئیں۔

جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی شاہدہ اختر علی نے کہا ہے کہ خواتین کو آزادی مارچ سے دور رکھنے کا مقصد انھیں غیر ضروری مشقت سے بچانا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ جے یو آئی ایف کی لیڈر شپ کی طرف سے خواتین کو آزادی مارچ میں شرکت کرنے یا نہ کرنے سے متعلق کوئی ہدایات نہیں دی گئیں۔

تاہم انہوں نے کہا کہ جے یو آئی ایف سے تعلق رکھنے والی خواتین خود ہی اس احتجاج میں جانے سے گریز کر رہی ہیں۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت کے مرد رہنما اور اراکین خواتین کے لیے موثر طریقے سے جدوجہد کرتے ہیں اور یہی صورت حال آزدی مارچ میں بھی ہے۔ اس لیے خواتین کی جمعیت کے احتجاج میں عملی طور پر موجودگی بہت ضروری نہیں سمجھی گئی۔

انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ شاہدہ اختر علی کا مکمل انٹرویو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں: 

ایک سوال کے جواب میں خاتون رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ جے یو آئی کے دستور میں خواتین کا جمعیت کی سرگرمیوں میں شامل کرنے کا ذکر نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2007 میں جنرل پرویز مشرف کے ایل ایف او (لیگل فریم ورک آرڈر) کے نفاذ کے بعد جمعیت نے خواتین کو اسمبلیوں میں بیٹھنے کی اجازت دی۔

ان کا کہنا تھا کہ جمعیت نے خواتین کو اسمبلیوں میں بیٹھنے کی اجازت پارلیمان کے ایک مشاورتی ادارہ ہونے کے باعث دی اور پارٹی لیڈر شپ نے سمجھا کہ خواتین کو مشورہ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پارلیمان کے اندر مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی اراکین پارلیمنٹ کی کارکردگی دوسری جماعتوں کی خواتین ایم این ایز اور سینیٹرز سے بہت بہتر ہے۔

’ہم سب تقریباً گھریلو خواتین ہیں اور پہلی مرتبہ پارلیمان میں آئی ہیں جبکہ دوسری جماعتوں کی خواتین اراکین کا اس سلسلے میں تجربہ بہت زیادہ ہے لیکن پھر بھی ہماری کارکردگی ان سے بہت اچھی ہے۔‘

شاہدہ اختر علی نے بتایا کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق جمعیت علمائے اسلام ف میں خواتین کا کردار بڑھانے پر غور جاری ہے اور اس سلسلے میں دستور میں تبدیلی متوقع ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب جمعیت کے اندر بھی خواتین کو عملی سیاست میں لانے سے متعلق سوچا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں بات چیت ہو رہی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 2018 کے عام انتخابات میں خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں جے یو آئی ایف کی خواتین نے سب سے زیادہ ووٹ دیے۔

جے یو ائی ایف کی ایم این اے کے خیال میں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی پارٹی لیڈرشپ اور اس سے منسلک خواتین عملی سیاست میں آنے کے لیے بالکل تیار ہیں۔

شاہدہ اختر نے کہا کہ اگر جماعت میں خواتین پر اتنی زیادہ پابندیاں ہوتیں تو وہ خود آج اس طرح یہ انٹرویو نہ دے رہی ہوتیں اور نہ ہی رکن اسمبلی ہوتیں۔

آزادی مارچ کے پہلے دن کراچی میں انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار رمیشا علی کو احتجاج کی کوریج کے دوران مشکلات سے متعلق شاہدہ اختر نے افسوس کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ جمعیت کی لیڈرشپ اس سلسلے میں تحقیقات کر رہی ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ آئندہ ایسے واقعات پیش نہ آئیں۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان