مولانا اور 30 اکتوبر کی تاریخ

اب 31 اکتوبر 2019 کو ایک اور تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ پوری دنیا میں دائیں بازو کی مذہبی پارٹیاں عوام میں مقبولیت حاصل کر رہی ہیں اور الیکشن جیت رہی ہیں۔

لبنان، عراق، سوڈان اور الجیریا میں جو عوامی دھرنے ہوئے انہیں کسی سیاسی پارٹی نے نہیں بلکہ عوام نے ترتیب دیا۔ یہ تمام دھرنے حکمران اشرافیہ سے اپنا حق لینے میں کافی حد تک کامیاب رہے (انڈپینڈنٹ اردو)

مجھے نہیں معلوم یہ حسن اتفاق ہے یا مولانا کی ٹیم نے سوچ سمجھ کر 31 اکتوبر کی تاریخ چنی ہے۔ 30 اکتوبر وہ تاریخ ہے جب 2011 میں عمران خان نے لاہور میں ایک تاریخی جلسہ کیا جس کے بعد ان کا سیاسی قد کاٹھ بڑھا اور لوگوں نے انہیں سنجیدہ لینا شروع کیا۔ آج پھر ایک نئی تاریخ مرتب ہو رہی ہے اس لیے تاریخ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کے آگے کیا ہوگا۔

لاہور کے تاریخی جلسے کے بعد مجھے یہ یقین تھا کہ الیکٹیبل کا ایک ریلا آئے گا اور پارٹی کو اپنے قبضہ میں لے لے گا۔ مجھے یہ بھی خدشہ تھا کہ عمران خان جنہیں ہمیشہ کندھوں کی تلاش رہتی ہے ایسا نہ ہو کہ عوام سے پلٹ کر کندھوں پر چڑھ جائیں۔ میں نے اپنے طور پر یہ کوشش کی کہ پارٹی کے لوگوں کو ان دونوں چیزوں سے دور رکھوں مگر عمران خان پر وزیراعظم بننے کا خبط سوار تھا اور اس کے لیے وہ کسی بھی چوکھٹ کو چومنے اور سجدہ کرنے کے لیے تیار تھے۔

مگر عمران خان کو اس وقت دھچکا لگا جب 2013 کے الیکشن میں وہ حکومت نہ بنا سکے۔ مگر اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں تھی۔ ایک تو یہ کہ ان کا اور ان کی پارٹی کا حکومت کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا، پارٹی کی کوئی تنظیم نہیں تھی اور نواز شریف میمو گیٹ اور کچھ اور معاملات کی وجہ سے تیسرے امپائر نہ اپنی پالیسی بنائی جو بعید از قیاس نہیں تھی۔ خیبرپختونخوا میں حکومت وہ کامیابی سے نہ کرسکے اور اس سے تجربہ حاصل نہ کر سکے مگر تیسرے امپائیر کو خوش کرنے میں لگے رہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ  2018 میں وزیر اعظم تو بن گئے مگر ایک سال میں عوام ان کی نااہلی اور ناتجربہ کاری سے اب اس بات پر قائل ہے کہ یہ نہ حکومت کرنے کے قابل ہیں اور نہ ان کا کوئی نظریہ یا سوچ ہے کے مسائل حل کیسے کرنے ہیں۔

تیسرے امپائر کا یہ خیال تھا کہ وہ اپنے تجربہ سے انہیں چلا لیں گے مگر وہ بھی اب مشکل نظر آ رہا ہے اس لیے کہ ملبہ سارا ان پر گر رہا ہے اور اداروں کی بدنامی ہو رہی ہے۔ آج پی ٹی آئی ایک پارٹی کے طور پر ختم ہو چکی ہے اور صرف ایک چوں چوں کا مربہ ہے جو عمران خان کے گرد جمع کیا گیا ہے۔ نواز شریف بھی ایک مختلف شخصیت کے طور پر ابھرے جو آج سب کے سامنے ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب 31 اکتوبر 2019 کو ایک اور تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ پوری دنیا میں دائیں بازو کی مذہبی پارٹیاں عوام میں مقبولیت حاصل کر رہی ہیں اور الیکشن جیت رہی ہیں۔ مولانا ان رجحانات کو کیش کرنا چاہتے ہیں اور ایک قومی لیڈر کے طور پر ابھرنا چاہتے ہیں۔ تو آج کے مارچ کے بعد ایک بات تو یہ ہوگی کہ اگلے الیکشن میں ایم ایم اے ایک بڑی پارٹی بننے کی کوشش کرے گی اور مولانا اس کے وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے۔ مولانا ہمیشہ سے تیسرے امپائر کے قریب رہے ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ عوامی لیڈر بنیں گے یا تیسرے امپائیر کندھوں پر چڑھیں گے۔ میرا خیال یہ ہے کہ زیادہ توقع اس بات کی ہے کہ وہ عوام کے مقابلہ میں کندھوں پر بھروسہ کرنا زیادہ فائدہ مند سمجھیں گے خاص طور پر اگر عمران خان کی مثال لیں جن کے وزیراعظم بننے کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا مگر کندھے کام آئے یعنی اس جمہوریہ میں حکمران اشرفیہ وہی رہتی ہے صرف چہرے بدلتے ہیں۔ 

لبنان، عراق، سوڈان اور الجیریا میں جو عوامی دھرنے ہوئے انہیں کسی سیاسی پارٹی نے نہیں بلکہ عوام نے ترتیب دیا۔ یہ تمام دھرنے حکمران اشرافیہ سے اپنا حق لینے میں کافی حد تک کامیاب رہے۔ پاکستان کے دھرنے حکمران اشرافیہ اپنے مفاد میں کرتی ہے اور عوام کا کوئی مسئلہ ان کے لیے اہمیت نہیں رکھتا۔ عمران خان اور مولانا دونوں ایک ہی کھیت کی مولی ہیں۔ اب یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا لیں کہ صرف عوامی دھرنہ یا مارچ جو ایک نئی جمہوریہ کیلئے ہو وہی اس قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے اس کے لیے تیار رہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ