باڈی شیمنگ: ’میں نے تقریبات میں جانا چھوڑ دیا تھا‘

باڈی شیمنگ کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کی سیریز ’جسم نشانے پر‘ کے سلسلے میں اسلام آباد میں قائداعظم یونیورسٹی کے طلبہ سے خصوصی بات چیت

پاکستانیوں کے بارے میں کہا جاتا کہ ہم بہت زندہ دل قوم ہیں۔حالات چاہے جیسے بھی ہوں، ہم ان میں سے کچھ نہ کچھ مذاق کا عنصر تو نکال ہی لیتے ہیں، چاہے وہ کسی کی رنگت، جسامت، بالوں یا آواز پر جگت ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن ہم یہ نہیں سمجھ پاتے کہ ایسا کرنا کسی کی تضحیک ہے اور اس سے مذاق کا نشانہ بننے والے شخص کو کتنا دکھ پہنچ رہا ہے۔

باڈی شیمنگ کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی سیریز ’جسم نشانے پر‘ کے سلسلے میں ہم نے اسلام آباد میں قائداعظم یونیورسٹی کے طلبہ سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ اس مسئلے کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اور اس کے بارے میں کیسے آگاہی پھیلائی جاسکتی ہے۔

اس گفتگو سے پتہ چلا کہ طالب علم معاشرے میں باڈی شیمنگ کے مسئلے اور اس کے نتیجے میں لوگوں کو پیش آنے والی مشکلات سے بخوبی واقف ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین اور مرد دونوں کو باڈی شیمنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں مردوں سے طاقتور اور لمبے چوڑے ہونے کی توقع کی جاتی ہے اور خواتین سے گوری اور خوبصورت۔

طالب علموں کا کہنا تھا کہ یہ معاشرے کے بنائے ہوئے خوبصورتی کے چند معیارات ہیں اور جو لوگ کسی بھی وجہ سے ان سٹینڈرز پر پورا نہیں اترتے انہیں خاص طور پر باڈی شیمنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو سوشل میڈیا کے دور میں اور بھی پریشان کن ہو گیا ہے۔

ماسٹرز کی طالبہ ثنا افراز نے بتایا: ’سوشل میڈیا پر سکرین کے پیچھے چھپ کر ٹرول کرنا بہت آسان ہوگیا ہے۔ آپ دیکھیں، اگر آپ نے کسی وزیر یا سیاست دان کا مذاق اڑانا ہے تو آپ ان کی کارکردگی کا مذاق نہیں اڑائیں گے بلکہ آپ ان کی جسامت کا مذاق اڑائیں گے۔‘

باڈی شیمنگ بہت سے لوگوں کے لیے نفسیاتی مسائل کا باعث بھی بنتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیچلرز کی سٹوڈنٹ زالندہ وقار شاہ نے کہا: ’باڈی شیمنگ آخر کار ڈپریشن کی طرف لے جاتی ہے۔ اس میں معاشرے کا بہت اہم کردار ہے۔ ہم ایسا محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں کبھی بھی قبول نہیں کیا جائے گا اور اسی سے ڈپریشن بھی ہوتا ہے۔

میڈیا کی تعلیم حاصل کرنے والے پی ایچ ڈی کے طالب علم غلام حسین کا کہنا تھا کہ میڈیا اشتہارات کے ذریعے ہمارے ذہنوں میں یہ تاثر ڈالتا رہتا ہے کہ اچھا لگنے کے لیے ایک خاص طرح سے ہی نظر آنا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ بوجھ لڑکیوں پر ہوتا ہے جہیں ہمارے رشتہ کلچر میں بھی رنگت اور جسامت کے باعث تضحیک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اپنے ساتھ ہونے والے باڈی شیمنگ کے واقعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے بیچلرز کی طالبہ حفضہ جنجوعہ نے بتایا کہ چونکہ بچپن سے ہی ان کا قد باقی بچوں سے لمبا رہا ہے تو ان کے خاندان اور کزنز میں انہیں لوگ اکثر گھوڑی کہا کرتے تھے جن سے انہیں بہت تکلیف پہنچتی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ بچپن میں تو وہ اس پر ناراض بھی ہو جایا کرتی تھیں لیکن اب وہ اس بات کو سمجھ چکی ہیں کہ کوئی بھی پرفیکٹ نہیں تو اس کے بارے میں زیادہ نہیں سوچتی۔

ثنا نے بتایا کہ وہ کشمیری خاندان سے ہیں تو انہیں ان کے رنگ اور وزن کی وجہ سے بہت مذاق اور طنز کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ ایک وقت تو ایسا آیا کہ انہوں نے خاندان میں اور دوستوں کے ساتھ تقریبات میں جانا چھوڑ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آہستہ آہستہ ان کے اندر اس بارے میں شعور آیا اور اب وہ باڈی شیمنگ کے خلاف لڑ رہی ہیں، تاہم اب بھی کئی بار ہمت ہار جاتی ہیں۔

معاشرے میں باڈی شیمنگ کے منفی اثرات کے بارے میں آگاہی کیسے پھیلائی جاسکتی ہے اور اس کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ اس بارے میں بات کرتے ہوئے حفضہ نے کہا کہ ’سب سے پہلے تو لوگ خود میں بھی اعتماد پیدا کر سکتے ہیں، جس کے لیے ضروری ہے کہ سیلف لَو یا خود سے پیار کے نظریے کو سمجھیں اور اپنائیں تاکہ وہ خود کو قبول کر سکیں اور اسی سے دوسرے بھی آپ کو قبول کرنا سیکھیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اس کے علاوہ ہمیں اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ اگلے بندے میں کتنا صبر ہے اور وہ کتنا برداشت کر سکتا ہے۔ اپنے مذاق کو بھی دیکھنا چاہیے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہم جو مذاق کریں وہ کسی کی تضحیک کر کے ہی ہو۔‘

ثنا نے کہا کہ سکولوں میں بچوں کے تعلیمی نصاب کو بدلنے سے بھی اس میں کمی آسکتی ہے کیونکہ اکثر ہم کتابوں میں پڑھتے اور دیکھتے ہیں کہ جو پتلا اور خوبصورت شخص ہوگا وہ ڈاکٹر یا انجینیئر ہوگا اور جو موٹا یا کم رنگ کا ہوگا وہ مزدوری کرنے والا ہوگا۔

بیچلرز کے طالب علم دانیال حبیب کا کہنا تھا کہ ہمیں اس موضوع پر آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ ’آپ جتنا اس پر بولیں گے اتنا ہی لوگوں کو پتہ چلے گا کہ یہ چیز غلط ہے اور وہ سوچیں گے کہ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس