سٹارٹ اپ کیا ہے اور یہ کیسے سٹارٹ ہوتا ہے؟

آج کل دن میں کئی بار نوجوانوں کے منہ سے سنائی دیتا ہے کہ وہ اپنا سٹارٹ اپ شروع کرنا چاہتے ہیں، لیکن کیا پاکستان میں اس کا کوئی مستقبل ہے؟

کلثوم لاکھانی اور شعیب ملک نوجوانوں سے گفتگو کرتے ہوئے(فاطمہ علی/انڈپینڈنٹ اردو)

سٹارٹ اپ ایک ایسا لفظ ہے جو آج کل دن میں کئی بار نوجوانوں کے منہ سے سنائی دیتا ہے کہ وہ اپنا سٹارٹ اپ شروع کرنا چاہتے ہیں یا اپنا سٹارٹ اپ چلا رہے ہیں وغیرہ وغیر۔

آخر یہ سٹارٹ اپ کیا ہے اور یہ کیسے سٹارٹ ہوتا ہے؟ اس کا فائدہ کیا ہے؟

اس حوالے سے لاہور میں سٹارٹ اپ شروع کرنے والوں کو دفتری سہولیات، آگاہی اور سرمایہ فراہم کرنے والے ادارے 'دفتر خوان' میں نوجوان بزنس ویمن کلثوم لاکھانی اور بزنس مین شعیب ملک نے نوجوانوں کے ساتھ ایک بیٹھک رکھی۔

ویسے تو کلثوم لاکھانی نے خارجہ امور میں امریکہ سے ماسٹرز کیا ہے مگر چونکہ وہ خود ایک بزنس مین کی بیٹی ہیں لہذا انہوں نے بھی کاروبار کرنا پسند کیا۔

کلثوم 2011 سے پاکستان میں کام کر رہی ہیں اور ان کا کام ہے سٹارٹ اپ بزنسز کو پروان چڑھانے میں مدد کرنا۔

کلثوم کی کمپنی ’انویسٹ ٹو انوویٹ‘ میں ان کے ساتھ ان کے دو اور ساتھی مصباح اور اسد بھی شامل ہیں جنہیں کلثوم کے خیال میں سرمایہ کاری میں خاصہ تجربہ ہے۔

کلثوم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: 'مجھے پاکستانی مارکیٹ کا اچھی طرح اندازہ ہو چکا ہے، یہاں نوجوانوں میں بہت زیادہ ہنر ہے اور وہ بہت ٹیلنٹڈ ہیں۔‘

’دفتر خوان کے ذریعے میری بہت سے ایسے نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جو اپنا نیا کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں، کچھ ایسے ہیں جنہیں کامیابی نہیں ملی مگر مجھ سے بات کر کے وہ پھر سے اپنا کاروبار شروع کرنے کا سوچ رہے ہیں۔‘

کلثوم کہتی ہیں ان کا ہدف ایک کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنا ہے جس میں ’ڈچ گڈ گورنمنٹ فنڈ‘ ان کی مدد کر رہی ہے۔

'فی الحال ہم نے دس لاکھ ڈالرز سے پانچ شعبوں میں سرمایہ کاری کی ہے جس میں سے ایک 'موقعہ آن لائن' ہے۔ یہ کمپنی گھریلو کاموں میں مدد فراہم کرتی ہے جو راولپنڈی اور اسلام آباد کے بعد اب لاہور اور کراچی میں بھی کام شروع کر رہی ہے اور ان کا بزنس ترقی پا رہا ہے۔‘

اسی بیٹھک میں شعیب ملک بھی موجود تھے جنہوں نے تعلیم تو انجینیئرنگ کی حاصل کی مگر پھر کاروبار کرنے کو بہتر جانا۔

شعیب بناسپتی آئل اور چاول وغیرہ سمیت بیشتر اشیا کا کاروبار کرتے ہیں اور ساتھ ہی سٹارٹ اپ بزنسز میں سرمایہ کار بھی کر رہے ہیں۔

شعیب کہتے ہیں: ’ہماری یونیورسٹیوں نے بہت سال صرف نوکری کرنے والے لوگ پیدا کیے۔‘

’ہم نے پڑھے لکھے نوجوانوں کا ذہن بنا دیا کہ ہم صرف نوکری کر سکتے ہیں لیکن سٹارٹ اپ ایکو سسٹم کے ذریعے ہم لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ آپ خود لوگوں کے لیے نوکریاں پیدا کر سکتے ہیں۔‘

سٹارٹ اپ شروع کیسے کیا جائے؟

شعیب ملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا 'پہلی چیز جو سٹارٹ اپ شروع کرنے والے میں چاہیے وہ جذبہ ہے۔ اپنے پیروں پر خود کھڑے ہونے کا جذبہ۔‘

’دوسری چیز آپ کا آئیڈیا۔ چھوٹا سا آئیڈیا ایک بہت بڑا بزنس بن سکتا ہے، جیسے لاہور میں دو برس سے چلنے والی گروسر ایپ جس کے ذریعے آپ اپنے گھر کا تمام سودا اس ایپ کے ذریعے منگوا سکتے ہیں۔‘

’اگر آپ میں جذبہ ہے تو آپ آئیں اور ہمیں بتائیں کہ آپ نے اپنا کاروبار کس طرح چلانا ہے نہ کہ ہم سے پوچھیں کہ میں کیا کروں؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کلثوم کے خیال میں 'پہلی چیز یہ کہ آپ ریسرچ کریں کہ مارکیٹ کیا ہے، آپ کے مدمقابل کون ہیں اور اس سے بھی پہلے آپ خود سے پوچھیں کہ آپ یہ کیوں کر رہے ہیں؟‘

’لوگوں سے بات کریں جو آپ کی پراڈکٹ کو استعمال کریں گے اور وہ لوگ جن کو اس کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد اپنا آئیڈیا ڈیزائن کریں، کمرے میں بیٹھ کر سوچنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا باہر نکل کر لوگوں سے بات کریں۔‘

سٹارٹ اپ کا آئیڈیا لے کر کہاں جائیں؟

شعیب ملک کہتے ہیں ’اب سٹارٹ اپ ایکو سسٹم میں ایسے ادارے موجود ہیں جو آپ کی پوری مدد کرتے ہیں، جیسے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کے اندر ایک این آئی سی سینٹر موجود ہے، ارفعہ کریم سینٹر میں پلینکس موجود ہے لیکن جو سٹارٹ اپ کی کریم نظر آتی ہے وہ دفتر خوان کے اندر موجود ہے۔‘

’یہاں آپ کو مینٹورنگ ملتی ہے، کام کرنے کی جگہ بھی ملتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں آپ کو اپنے جیسے نوجوان ملتے ہیں جن سے آپ سیکھتے ہیں، آپ کو اس ایکو سسٹم کا حصہ بننا پڑے گا اکیلے آپ کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘

شعیب کہتے ہیں انہوں نے بہت سے ایسے سٹارٹ اپس دیکھے جنہوں نے چند برس پہلے زیرو سے شروع کیا اور آج وہ لاکھوں ڈالرز کا زرمبادلہ پیدا کر رہے ہیں جیسے ’ایٹ مبارک‘ ایک کمپنی ہے اور یہ ایک کامیاب کاروبار کی کہانی ہے۔

دوسری جانب کلثوم کہتی ہیں 'کوئی بھی ہم سے ہماری ویب سائٹ، لنکڈ ان یا کسی بھی سماجی رابطہ کی سائیٹ پر رابطہ کر سکتا ہے۔‘

ایک سٹارٹ اپ کے لیے پیسے کتنے چاہیے؟

شعیب کے مطابق آئیڈیا کے اوپر سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ ایک سٹارٹ اپ کا آئیڈیا لے کر جو بھی ہمارے پاس آئے گا اس کو ہم نے پیسے نہیں دینے۔ ہاں البتہ ان کے آئیڈیا کی توثیق کریں گے ،اسے پختہ کریں گے اور اسے مزید نکھار کر اسے عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ پیسے ایک بہت چھوٹا مسئلہ رہ جاتا ہے۔ اس ایکو سسٹم کو سمجھنے والے سرمایہ کار موجود ہیں مگر یہ منحصر ہے کہ آپ کا آئیڈیا کتنا پختہ ہے؟

کلثوم کہتی ہیں کہ ’پیسے بعد میں آتے ہیں پہلے تو سٹارٹ اپ بزنس کے حوالے سے آپ اپنی نیٹ ورکنگ کریں۔ ہم سے رابطہ کریں اور بار بار کریں تاکہ آپ اپنے بزنس کے حوالے سے ہم سے کھل کر سوال جواب کریں، ہم آپ کو پوری رہنمائی فراہم کریں گے۔‘

شعیب کے خیال میں سٹارٹ اپ بزنس میں پاکستان کے لیے ایک موقع ہے۔ ’ہم ٹیکسٹائل سیکٹر میں پھنسے ہوئے ہیں جیسے پاکستان کو شاید صرف ٹیکسٹائل سیکٹر نے ہی بچانا ہے یا اس جیسی اور انڈسٹریز نے بچانا ہے۔‘

'میرا یقین ہے کہ پاکستان کی معیشت کو ینگ سٹارٹ اپس بچا سکتے ہیں اگر ہم ان میں سرمایہ کاری کریں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل